اسرائیلی انٹیلیجنس کا نیا نفسیاتی ہتھیار: عربی لہجے، ثقافت اور شعور پر یلغار
صہیونی جاسوسی نظام کی ناکامی کے بعد اسرائیل کی عرب معاشروں میں نرم مداخلت کی نئی حکمت عملی

شیعیت نیوز : صہیونی حکومت اپنے جدید جاسوسی نظام کی وجہ سے دنیا میں اسرائیل کی سیکیورٹی کو محفوظ ترین قرار دیتی تھی۔ 7 اکتوبر 2023 کو فلسطینی مقاومتی گروہوں کی کارروائیوں کے بعد دنیا بھر میں صہیونی حکومت اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا۔
طوفان الاقصی کے بعد صہیونی حکومت نے اپنے انٹیلیجنس نظام پر نظرِ ثانی شروع کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق، اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں حالیہ ناکامیوں کے بعد جاسوسوں کو بھرتی کرنے کے لیے ایک نیا اور مخصوص طریقہ اپنانے پر مجبور ہوگئی ہیں۔
اسرائیلی اخبار یدیعوت آحارونوت نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ صہیونی انٹیلیجنس ادارے اب انسانی سرمایہ کاری پر دوبارہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں اور مقامی زبانوں اور لہجوں کے ماہر افراد کی تربیت پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ ایجنسیوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ روایتی جاسوسی ذرائع کی موجودگی بھی اب ناگزیر ہوچکی ہے۔
اسی تناظر میں اسرائیلی فوجی انٹیلیجنس کا شعبہ "امان”، ہائی اسکول سے فارغ التحصیل نوجوانوں کے لیے ایک نیا 6 ماہ کا تربیتی پروگرام شروع کرچکا ہے، جس کا مقصد مخصوص زبانیں اور لہجے سکھانا ہے تاکہ سیکیورٹی ضروریات کے تحت ان افراد کو جاسوسی مشنوں کے لیے تیار کیا جاسکے۔
کرنل رینک کے ایک اسرائیلی افسر نے کہا ہے کہ یہ حکمت عملی مستقبل میں بھی جاری رہے گی، اور انٹیلیجنس اداروں میں مختلف زبانوں پر عبور رکھنے والے افراد کی ایک منظم کھیپ تیار کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں : جنگ بندی توڑنے پر تل ابیب شہر خموشاں میں بدل جائے گا، آیت اللہ خاتمی
امان کے تحت چلنے والے ان اسکولوں میں ہر سال سیکڑوں فوجی اہلکار عربی کے مختلف لہجے جیسے شامی، لبنانی، فلسطینی، عراقی اور بدوی سیکھتے ہیں۔ یہ تربیت صرف زبانی نہیں بلکہ عملی و سمعی مواد پر مبنی ہے، جس میں فیلڈ رپورٹس، روزمرہ کی گفتگو، گانے، سوشل میڈیا کلپس اور ویڈیوز شامل ہوتی ہیں، تاکہ تربیت پانے والے اہلکار حقیقی عربی لہجے اور ماحول سے بخوبی آشنا ہوسکیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اس قسم کی سرمایہ کاری اس کی انٹیلیجنس کمزوریوں اور اندرونی خوف کی عکاسی کرتی ہے، جو اسے میدان جنگ میں بارہا شکستوں کے بعد لاحق ہوا ہے۔
صہیونی انٹیلیجنس اداروں کی تربیت محض زبان سکھانے تک محدود نہیں، بلکہ اسے ثقافتی اور سیاسی تجزیے کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ ان تربیتی پروگراموں میں جاسوسوں کو یہ سکھایا جارہا ہے کہ وہ مختلف ممالک کی فکری ساخت، سماجی روایات اور مقامی افکار کو گہرائی سے سمجھیں۔
اسرائیلی دفاعی ذرائع کے مطابق، ان کورسز کا مقصد صرف مترجم تیار کرنا نہیں بلکہ ایسے انٹیلیجنس افسران تیار کرنا ہے جو مقامی معاشروں، ثقافت اور سیاسی رجحانات کی گہری سمجھ کے ساتھ معلومات اکٹھی کرنے میں مہارت حاصل کریں۔
مذکورہ صہیونی افسر نے کہا کہ ایک اچھا انٹیلیجنس افسر بننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان نظریات، ثقافتوں اور اقدار کا مطالعہ کریں جو عربوں کے افکار اور عادات کی بنیاد ہیں۔
اس ضمن میں صہیونی اخبار معاریو نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل یمنیوں سے متعلق جاسوسی کے وسائل کی کمی کا شکار ہے اور اسے توقع نہیں تھی کہ انصار اللہ اس شدت سے محاذ میں داخل ہوگی۔ اسی لیے اب اسرائیل حال ہی میں آئے یمنی نژاد یہودیوں کو بھرتی کررہا ہے جو یمنی لہجے اور عربی زبان پر عبور رکھتے ہیں تاکہ انصار اللہ کے خلاف انٹیلیجنس معلومات اکٹھی کی جاسکیں۔
رپورٹ کے مطابق، طوفان الاقصی کے بعد اسرائیلی فوجی انٹیلیجنس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی گئی ہیں، جن کے تحت اسلامی ثقافت اور عربی زبان پر مبنی تربیتی کورسز کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ یہ تربیت فوج میں بھرتی سے پہلے سے لے کر افسران کی سطح تک دی جا رہی ہے۔
صہیونی فوجی ریڈیو کے مطابق، اس اقدام کا مقصد فوجی اہلکاروں، سپاہیوں اور مستقبل کے کمانڈرز کو عرب معاشروں کی بہتر اور گہری تفہیم کے لیے درکار علمی و لسانی مہارت سے آراستہ کرنا ہے۔
علاوہ ازیں ویب سائٹ The Debrief Post نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اسرائیلی فوجی انٹیلیجنس کے تمام اہلکاروں کو اسلامی تعلیمات کی تربیت دی جائے گی اور ان میں سے نصف کو آئندہ برس کے دوران عربی زبان بھی سکھائی جائے گی۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، حالیہ برسوں میں یہ واضح ہوا ہے کہ اسرائیل نے روایتی جنگی ذرائع کے ساتھ ساتھ نرم اور نفسیاتی حکمت عملیوں کو بھی اپنایا ہے، جن کا مقصد عرب عوام کی اجتماعی ذہنیت اور شعور میں سرایت کرنا اور ذہنی رکاوٹوں کو توڑنا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت پیغامات کو بغیر کسی نمایاں مزاحمت کے منتقل کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔
عرب امور کے ماہر اور ماہر نفسیات عبدالرحمن مزہر اس خطرناک رجحان کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زبان اور ثقافت میں شمولیت فریقین کے درمیان نفسیاتی فاصلے کو کم کردیتی ہے۔ ان کے مطابق، لہجہ صرف اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ شخصیت اور شناخت کی نمائندگی کرتا ہے۔ جب کوئی اجنبی مقامی لہجے میں بات کرتا ہے تو سامع فطری طور پر اسے اپنائیت اور مانوسیت کے احساس کے ساتھ سنتا ہے، جو دشمن کے پیغام کو بلا ارادہ قبول کرنے کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
مزہر مزید کہتے ہیں کہ یہ نفسیاتی آپریشن فریق مخالف کے ساتھ جذباتی وابستگی اور تعلق پیدا کرتا ہے، جس کے بعد دشمن اپنے سیاسی اور ثقافتی افکار کو آسانی سے منتقل کرسکتا ہے۔ اس کا اظہار مختلف شکلوں میں کیا جاتا ہے جیسے کہ صہیونی عناصر کا عربی روایتی لباس پہننا، یا عرب کھانوں کو اسرائیلی ثقافت کا حصہ بنا کر پیش کرنا۔ یہ نرم ہتھیار روایتی ہتھیاروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ روایتی ہتھیاروں کو عوام پہچان لیتے ہیں اور اس کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، لیکن نرم حملہ دھیرے دھیرے معاشرے میں سرایت کرتا ہے اور قدریں، شناخت اور نظریات بدل دیتا ہے، بغیر اس کے کہ متاثرہ فریق کو اس خطرے کا ادراک ہو۔
اسی سلسلے میں صہیونی وزارت خارجہ نے عرب رائے عامہ کے ساتھ رابطہ مضبوط بنانے کے لیے نئی حکمتِ عملی اختیار کی ہے، جس کے تحت سوشل میڈیا پر اعلیٰ حکام کی عربی زبان میں سرکاری صفحات قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں کچھ صفحات مصر اور اردن جیسے ممالک میں واقع صہیونی سفارت خانوں کے بھی ہیں جو ان ممالک کے عوام کے ساتھ نفسیاتی اور لسانی رابطے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے نمایاں نام آویخای ادرعی کا ہے، جو صہیونی قابض فوج کا ترجمان ہے۔ وہ فیس بک اور ٹوئٹر پر عربی زبان میں براہ راست عرب عوام سے بات چیت کرتا ہے اور مختلف مقامات سے اپنی تصاویر بھی شیئر کرتا ہے، اگرچہ اس کی پوسٹیں اکثر عرب دنیا کے عوام کی جانب سے طنزیہ تبصروں کا نشانہ بنتی ہیں۔
صہیونیت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے خلاف مزاحمت کے مرکزی رابطہ کار انس ابراہیم اس رجحان کو ایک منظم صہیونی منصوبہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، اس منصوبے کا مقصد عربی بولنے والے ترجمانوں کی ایک ایسی نسل تیار کرنا ہے جو مختلف عرب لہجوں میں صہیونی بیانیے کو عوام میں راسخ کرے۔ یہ حکمت عملی عرب شعور کی ساخت کو بدلنے اور آئندہ نسلوں کو اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کا ایک فطری حصہ تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ترتیب دی گئی ہے۔
انس ابراہیم کے بقول اس پالیسی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ ایک ایسا نفسیاتی نوآبادیاتی منصوبہ ہے جو انسان کے ذہن اور دل کو اپنے قبضے میں لیتا ہے کیونکہ قابض قوتیں اب صرف ہتھیاروں پر انحصار نہیں کررہیں بلکہ وہ نفسیاتی اور ثقافتی تسلط کو ایک مؤثر ذریعہ بناچکی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے کے خلاف مزاحمت کے لیے عوامی بیداری اور اپنی شناخت کو تحفظ دینا ضروری ہے۔