شہادت امام محمد تقی الجوادؑ کی مناسبت سے مدرسہ الولایہ قم میں مجلسِ عزاء، علامہ حسن ظفر نقوی کا خطاب
علامہ حسن ظفر نقوی کا کہنا ہے کہ میدانِ عمل میں صرف تشیع باقی ہے اور اہل بیتؑ کی سیرت مشعل راہ ہے

شیعیت نیوز : قم (مدرسہ الولایہ) 27 مئی 2025 کو شہادت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی مناسبت سے مدرسہ الولایہ قم میں ایک پُر سوز مجلسِ عزاء منعقد ہوئی، جس میں علما، طلباء اور عاشقانِ اہل بیت علیہم السلام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مجلس کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا، جس کے بعد معروف نوحہ خوانوں نے سوز و سلام پیش کیا۔ بعد ازاں حجت الاسلام علامہ سید حسن ظفر نقوی نے خطاب فرمایا۔
اپنے خطاب میں علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ اسلام میں مختلف مذاہب ہیں، لیکن میدانِ عمل میں صرف تشیع باقی ہے کیونکہ تشیع کے پاس آئمہ اطہار علیہم السلام کی صورت میں مکمل اسوۂ عمل موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ میں اہل بیتؑ اور ان کے ماننے والوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے، لیکن شیعہ قوم نے ہمیشہ اماموں کی سیرت کو مشعل راہ بنایا اور خوف کے مقابلے میں جرأت کا راستہ اپنایا۔ علامہ نے قم المقدسہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جنابِ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے اس شہر کو اپنی قیام گاہ کے طور پر منتخب کیا کیونکہ یہ تشیع کا مضبوط قلعہ ہے۔
انہوں نے مختلف فقہی مکاتب کے وجود میں آنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اکثر مکاتب وقت کے حکمرانوں کے مطابق فتوے دیتے رہے، جب کہ آئمہ کرامؑ نے ہمیشہ حق کا علم بلند رکھا۔ فقہ جعفری میں باطل نظریات کی گنجائش نہیں، ہر جعلی چیز کو رد کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں : قم: مجلسِ وحدتِ مسلمین کے زیرِ اہتمام شہادتِ امامِ جوادؑ پر مجلسِ عزا، علامہ حسن ظفر نقوی کا خطاب
علامہ حسن ظفر نقوی نے موجودہ حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج امت اسلامی فکری یلغار کا شکار ہے، تعلیمی نصاب میں دشمنوں کو شامل کیا جا رہا ہے، اور حتیٰ کہ مروان جیسے فاسق کے عرس منانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، جس پر شیعہ و سنی دونوں سراپا احتجاج ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارا چنار، گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں میں اہل تشیع پر ظلم ہو رہا ہے، لیکن یاد رکھیں ہر فرد ایک طاقت ہے۔ ایک شخص بھی ملت کی تقدیر بدل سکتا ہے، جیسا کہ امام خمینیؒ نے کیا۔ ہمیں اللہ کے وعدوں پر کامل یقین رکھنا چاہیے۔
مجلس کا اختتام امام جواد علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت پر بیان کردہ مصائب، نوحہ خوانی اور نیاز کی تقسیم کے ساتھ ہوا۔