اہم ترین خبریںلبنانمقبوضہ فلسطین

شیخ نعیم قاسم کا خطاب اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی

یمن و لبنان کے درمیان عسکری ہم آہنگی عروج پر، مشترکہ دشمن کو سخت پیغام

شیعیت نیوز : روزنامہ رائ الیوم کے اداریے میں علاقائی تزویراتی امور کے تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کے حالیہ خطاب کو غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ شیخ نعیم قاسم کا خطاب قابض دشمن کے ساتھ فوجی تصادم کے میدان میں لبنانی مزاحمت کی جلد واپسی کے امکان کو بڑھاتا ہے، جس نے اب تک جنگ بندی معاہدے کی 2,700 سے زائد مرتبہ خلاف ورزی کی ہے۔

عطوان نے واضح کیا کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے بیانات میں دو نکات قابل غور تھے:

پہلا: انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی طاقت لبنانی مزاحمت کو غیر مسلح نہیں کر سکتی، کیونکہ مزاحمتی ہتھیاروں نے لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرایا ہے اور لبنان کی علاقائی سالمیت کو محفوظ رکھا ہے۔

دوسرا: انہوں نے پہلی بار انکشاف کیا کہ صیہونی حکومت لبنان کی سرزمین پر اپنے قبضے کو وسعت دینے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ غزہ اور مغربی کنارے سے نکالے گئے فلسطینیوں کو ان علاقوں میں آباد کر سکے۔

عطوان نے مزید کہا کہ وہ اس بیان سے متفق ہیں کہ حزب اللہ کمزور نہیں ہوئی بلکہ اس کے پاس لبنان کے خلاف صیہونی رژیم کی جارحیت اور جنگ بندی کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی کا جواب دینے کے لیے بہت سے آپشنز موجود ہیں۔

یہ درست ہے کہ حزب اللہ کو سید حسن نصر اللہ اور اس کے اعلیٰ کمانڈروں کی شہادت کے بعد پیجر دھماکوں کے نتیجے میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا، لیکن لبنانی حزب اللہ کے معتبر ذرائع کے مطابق، وہ نہ صرف ان بحرانی حالات سے سرخرو نکلی ہے، بلکہ وہ پرانے کمانڈروں کے مقابلے میں جدید جنگی صلاحیتوں کے حامل نئے فوجی کمانڈروں کی تعداد بڑھانے میں بھی کامیاب ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : سعودی ولی عہد کا اسرائیلی جارحیت روکنے اور ایران کی حاکمیت کے احترام کا مطالبہ

انہوں نے انکشاف کیا کہ نئے کمانڈر جنگ بندی سے پہلے اتوار کو ہونے والے بڑے آپریشن کو انجام دینے کے ذمہ دار تھے، جنہوں نے تل ابیب، حیفہ اور عکا پر لبنانی بیلسٹک اور انتہائی درست میزائلوں کی بارش کی تھی۔ ان میزائلوں میں سے ایک نے اسرائیلی حکومت کے آپریشنز کنٹرول روم کو نشانہ بنایا اور دوسرا تل ابیب کے ملٹری انٹیلی جنس بیس اور یونٹ 8200 کے ہیڈ کوارٹر پر لگا، جبکہ تیسرا میزائل اسرائیل کی جدید ترین خفیہ جنگی تنصیبات پر جا لگا۔

ان حملوں نے ہی امریکی ایلچی آموس ہوچسٹین کو فوری طور پر ملکی حکام کے ساتھ جنگ بندی پر دستخط کرنے کے لیے بیروت جانے پر مجبور کیا۔

عطوان نے حزب اللہ کے ہتھیاروں کو خاص طور پر ساحلی علاقوں میں شام کی نئی حکومت سے وابستہ دہشت گردوں کے جرائم کے بعد ایک اسٹریٹجک ضرورت سمجھا، جسے کبھی نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہیے۔

یہ اس وقت ہے جب حزب اللہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے اور فاشسٹ رژیم جنگ بندی معاہدے کی شرائط پر عمل نہیں کر رہی ہے، جس میں جنوبی لبنان سے مکمل انخلا بھی شامل ہے۔ اس لیے ان ہتھیاروں کو نہ صرف محفوظ رکھنا چاہیے بلکہ پہلے کی نسبت مضبوط بھی کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریباً ایک ہفتہ قبل کہا تھا کہ یمن میں امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یمن کی انصار اللہ کے زمینی، سمندری اور فضائی بیلسٹک میزائل یمنیوں نے مقامی طور پر تیار کیے ہیں اور بیرون ملک سے درآمد نہیں کیے گئے ہیں۔ یہی بات لبنان میں حزب اللہ پر بھی لاگو ہوتی ہے، جس نے ہتھیاروں کی تیاری کے لیے اپنی ملکی صلاحیتوں کو مضبوط کیا ہے اور اس کے پاس ضروری صلاحیت اور وسائل موجود ہیں۔ دوسری جانب یمن اور لبنان کے درمیان فوجی ہم آہنگی ان دنوں اپنے عروج پر ہے اور ان سب کے علاوہ زمینی، فضائی اور سمندری میدانوں میں ہتھیاروں کے تبادلے کے متبادل راستے بھی کام کر رہے ہیں۔

عبدالباری عطوان نے کہا کہ وہ لبنانی سرزمین سے تل ابیب کی طرف فائر کیے جانے والے پہلے میزائل کا انتظار کر رہے ہیں، جو قریب قریب نظر آتا ہے، خاص طور پر شیخ نعیم قاسم کے حالیہ خطاب کے بعد زیادہ ممکن نظر آتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button