حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شان حلم و بردباری کے چند نمونے
حلم کی عظمت و فضیلت: قرآن و روایات کی روشنی میں

شیعیت نیوز: بلاشبہ "حلم” ایک عربی لفظ ہے، جس کی تعریف سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی سائل کے سوال کے جواب میں یوں بیان فرمائی ہے:
قیل لہ علیہ السلام: فما الحلم؟ قال: کظم الغیظ و ملک النفس۔ (حرانی ابن شعبہ، تحف العقول، ص ۲۲۷)۔
راوی کہتا ہے کہ جب حضرت سے یہ کہا گیا کہ حلم کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: حلم غیظ و غضب کو پی جانے اور نفس پر کنٹرول کرنے کا نام ہے۔
علامہ راغب اصفہانی نے بھی المفردات میں حلم کی تعریف تقریباً اسی طرح کی ہے:
"الحلم: ضبط النفس عن هیجان الغضب” (۱)
یعنی حلم، شدت غیظ و غضب کے ہنگام نفس کو قابو میں رکھنے کو کہتے ہیں۔
حق یہ ہے کہ "حلم” کی عظمت و فضیلت، عقل و خرد کے نزدیک ثابت و مسلم ہے اور اس عظیم صفت سے آراستہ ہونے کے ذی قیمت آثار و فوائد کسی صاحب عقل و شعور کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
البتہ دینی اعتبار سے اس کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ قرآن مجید میں خداوند عظیم وحکیم نے اس عظیم صفت سے گیارہ مقامات پر اپنی ذات اقدس کا تعارف کرایا ہے، جن میں سے یہاں صرف تین مقامات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
مقام اول: سورہ اسراء میں ارشاد ہوا ہے: "إنه كان حليماً غفوراً”۔
مقام دوم: سورہ احزاب میں وارد ہوا ہے: "وكان اللهُ عليماً حليماً”۔
مقام سوم: سورہ بقرہ میں موجود ہے: "واللہ غنی حلیم”۔
اس کے علاوہ قرآن حکیم ہی میں متعدد نبیوں کا تعارف، دیگر صفات کے ہمراہ اس باعظمت صفت سے بھی کرایا گیا ہے، مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلہ میں وارد ہوا ہے: "ان ابراھیم لحلیم اواہ منیب” (۲)۔ نیز حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی بشارت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: "فبشرناہ بغلام حلیم” (۳)۔
بھی پڑھیں: حضرت امام حسن علیہ السلام کی تعلیمات کو اپنا کر باہمی اختلافات کو ختم کیا جا سکتا ہے، مقررین
روایات میں حلم کی عظمت و فضیلت:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حلم، علم کے بعد انسانی کمالات میں سب سے "افضل و اشرف” مقام رکھتا ہے اور حلم کی اسی منزلت کی خاطر کثیر روایات میں اسے مورد مدح و ستائش قرار دیا گیا ہے اور لوگوں کو اس سے آراستہ ہونے کی تاکید بھی کی گئی ہے، جس کے چند نمونے یہاں ذکر کیے جا رہے ہیں:
۱۔ سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
"ابتغوا الرفعۃ عنداللہ” اللہ کے نزدیک بلند مقام و مرتبہ حاصل کرنے کے درپے رہو!! پوچھا گیا وہ کس طرح؟ تو آپ نے فرمایا:
"تحلم عمن جھل علیک و تعطی من حرمک”۔ (۴)
جو تم سے جہالت و نادانی سے پیش آئے، اس کے ساتھ حلم و بردباری سے کام لو اور جو تمھیں محروم کرے، اسے عطا کرو۔
۲۔ سرکار مولائے کائنات امام علی مرتضیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد مبارک ہے:
"لَيْسَ الْخَيْرَ أَنْ يَكْثُرَ مَالُكَ وَ وَلَدُكَ وَ لَكِنَّ الْخَيْرَ أَنْ يَكْثُرَ عِلْمُكَ وَ يَعْظُمَ حِلْمُك” (۵)۔
خیر یہ نہیں ہے کہ تمھارے مال و اولاد زیادہ ہوں، بلکہ خیر یہ ہے کہ تمھارا علم، کثیر اور حلم، عظیم ہو۔
۳۔ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام ہی کا یہ فرمان بھی ہے:
"الحلم عشیرۃ” (۶) حلم و بردباری مکمل قبیلہ ہے۔
۴۔ حضرت امام صادق علیہ السلام کا گرانقدر فرمان ہے: "کفیٰ بالحلم ناصراً” (۷) حلم و بردباری، نصرت و مدد کرنے کے لیے کافی ہے۔
۵۔ حضرت امام رضا علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:
"لَا يَكُونُ الرَّجُلُ عَابِداً حَتَّى يَكُونَ حَلِيما” (۸) انسان، اس وقت تک حقیقی عابد نہیں بنتا، جب تک حلیم و بردبار نہ بنے۔
علم و حلم کا باہمی رابطہ:
احادیث و روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علم و حلم کے درمیان ایسا عمیق و وزین رابطہ پایا جاتا ہے کہ اگر علم کے ساتھ حلم نہ ہو تو وہ بے سود ہے اور اس سے وہ فیض حاصل نہیں ہو سکتا جو ہونا چاہیے۔
شاید اسی لیے حضرت امیر البیان و الرشاد مولا علی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے:
"لا علم لمن لا حلم لہ” (۹) علم و دانش نہیں رکھتا وہ، جو حلم و بردباری سے آراستہ نہ ہو۔
آپ ہی نے ان دونوں کے درمیان پائے جانے والے رابطے کی مزید وضاحت "نعم قرین الحلم العلم” (۱۰) اور "نعم وزیرالعلم الحلم” (۱۱) کہہ کر فرمائی ہے، یعنی آپ کی نگاہ مبارک میں علم، حلم و بردباری کے لیے بہترین قرین و ہمنشین کی حیثیت رکھتا ہے اور حلم، علم کے لیے بہترین وزیر کا درجہ رکھتا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ علم کا کام "طرح” پیش کرنا ہے اور حلم کا کام اسے جامہ عمل پہنانا ہے۔
حلم الہی اور حلم عبادی:
یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ حلم و بردباری وہ گرانقدر کمال و صفت ہے کہ جسے خداوند متعال کی ذات اقدس نے اپنے لیے بھی پسند فرمایا ہے اور اپنے تمام نبیوں، رسولوں، اماموں اور ولیوں کو بھی اس سے نوازا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ عز و جل اور اس کے بندوں میں پایا جانے والا یہ وصف و کمال یکساں معنی و مفہوم کا حامل ہے یا اس میں کچھ فرق و امتیاز پایا جاتا ہے؟
اس کا جواب ہمارے علماء نے اس طرح دیا ہے کہ:
اللہ عز و جل کے حلیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندوں کے گناہوں سے مکمل طور پر آگاہ و باخبر ہونے اور ان کو سزا دینے پر پوری قدرت رکھنے کے باوجود سزا دینے میں جلدی نہیں فرماتا اور انھیں مہلت دیتا رہتا ہے۔
لیکن عام بندوں کے حلیم ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ جب ان کے اندر یہ صفت آ جاتی ہے تو وہ اپنے اعصاب و احساسات سے مغلوب نہیں ہوتے اور ناروا اخلاق و اعمال کے مقابلہ میں غیظ و غضب میں مبتلا ہونے کے بجائے ضبط نفس سے کام لیتے ہیں۔
حضرت امام مجتبیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی شان حلم و بردباری:
خداوند متعال کے عبد و ولی مقرب، فرزند رسول، دلبند علی و بتول حضرت امام حسن مجتبی علیہ الصلوۃ و السلام جہاں بہت سے اعلیٰ فضائل و مکارم اور عظیم اخلاق و کمالات کا پیکر تھے، وہیں آپ خلیفہ و ولی الہی اور وارث نبی و علی ہونے کے ناطے الہی، نبوی و علوی حلم و بردباری کا بھی مرقع تھے۔
ظاہر ہے کہ آپ کے تمام تو کیا بعض فضائل و مکارم کا مختصر بیان بھی اس مقالہ کی بساط سے باہر ہے، اس لیے یہاں آپ کے یوم ولادت کی مبارک مناسبت کو مغتنم سمجھتے ہوئے فقط آپ کی ایک باعظمت اخلاقی صفت و فضیلت "حلم و بردباری” کے چند نمونے ذکر کیے جا رہے ہیں، تاکہ ہم سب مولا کے ادنیٰ غلام ان سے درس رشد و ہدایت حاصل کر سکیں:
۱۔ حضرت امام حسن مجتبی علیہ الصلوۃ والسلام اس قدر حلیم و بردبار شخصیت کے مالک تھے کہ مروان ملعون جیسا کٹر دشمن اہل بیت بھی جس کی تعریف و تحسین پر مجبور دکھائی دیتا ہے، جیسا کہ سنی معتزلی عالم ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ:
جب امام حسن کا جنازہ بقیع کی سمت لے جایا جا رہا تھا تو امام حسین علیہ السلام نے اشک بار آنکھوں کے ساتھ مروان سے کہا:
"تحمل الیوم جنازتہ و کنتَ بالامس تجرّعه الغیظ”
تو آج اس کا جنازہ اٹھائے ہوئے ہے، کل تک جس کو رنج و غم کے گھونٹ پلا رہا تھا۔
یہ سن کر مروان بولا: نعم کنت افعل بمن یوازن حلمه الجبال (۱۲)
ہاں میں اس شخص کے ساتھ ایسا کرتا تھا، جو حلم و بردباری میں پہاڑ کے ہم وزن تھا۔ اللہ اکبر و العظمۃ للہ۔
۲۔ ایک دن حضرت امام حسن مجتبی علیہ الصلوۃ والسلام گھوڑے پر سوار تھے کہ راستہ میں آپ کو دیکھتے ہی ایک شامی نے گالیاں دینی شروع کر دیں اور بہت دیر تک جلی کٹی باتیں کہتا رہا، لیکن آپ خاموشی سے سنتے رہے، جب وہ چپ ہو گیا تو آپ نے اس کی طرف رخ کر کے اسے سلام کیا اور ہنستے ہوئے اس سے فرمایا:
اے مرد! میرا خیال ہے کہ تو پردیسی ہے اور تجھے دھوکا ہوا ہے، اگر تو ہم سے کچھ چاہے گا تو ہم عطا کریں، اگر رشد و ہدایت کا طالب ہوگا تو تجھے ارشاد کریں گے، اگر تو بھوکا ہے تو شکم سیر کریں گے، اگر برہنہ ہے تو لباس دیں گے، اگر تنگدست ہے تو غنی کر دیں گے، اگر غریب ہے تو تجھے پناہ دیں گے، اگر کوئی بھی حاجت ہے تو اسے پوری کریں گے۔
اب اگر اپنا ساز و سامان اٹھا کر تو ہمارے گھر لے آئے اور جب تک چاہے ہمارا مہمان بن کر رہے تو تیرے لیے بہتر ہوگا، چونکہ ہمارا گھر وسیع و عریض ہے اور وہاں جو تو چاہے گا وہ فراہم ہوگا۔
جب اس نے حلم و بردباری سے لبریز حضرت کی یہ باتیں سنیں تو بولا:
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اس زمین پر اللہ کے خلیفہ و جانشین ہیں اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت و خلافت کو کہاں قرار دے۔
تھوڑی دیر پہلے میں آپ اور آپ کے بابا سے سب سے زیادہ عداوت و دشمنی رکھتا تھا، لیکن اب آپ مجھے مخلوقات میں سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہیں۔
یہ کہہ کر وہ اپنا ساز و سامان لے کر مولا کے گھر آ گیا اور جب تک اسے مدینہ میں رہنا تھا، فرزند رسول کے گھر قیام پذیر رہا اور اہل بیت کا محب و معتقد ہو گیا۔ (۱۳)
۳۔ سرکار امام حسن مجتبی علیہ الصلوۃ والسلام کے حلم و بردباری کا یہ عالم تھا کہ جب آپ زہر کی شدت سے تڑپ رہے تھے تو حضرت امام حسین علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے؟
تو فرمایا: تم پتہ لگا کر کیا کرو گے، کیا اسے قتل کر ڈالو گے؟
اگر وہ وہی ہو جسے میں جانتا ہوں تو اللہ کا غضب و عذاب اس پر تم سے زیادہ ہے اور اگر وہ نہ ہو تو میں نہیں چاہتا کہ کوئی بے گناہ میری وجہ سے گرفتار ہو۔ (۱۴)
ظاہر ہے کہ علم امامت سے تو تمام ائمہ معصومین علیہم السلام اس قسم کے حقائق کو جانتے ہیں، لیکن یہاں امام علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک عام اور رائج لہجہ میں گفتگو فرمائی ہے۔
آخر کلام میں رب حلیم و کریم سے دعا ہے کہ اپنے عظیم حلم و کرم سے بحق امام حسن مجتبی علیہ السلام ہم سب کو دولت علم و حلم سے نواز کر اپنی رضا و خوشنودی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق کرامت فرمائے، آمین۔