اہم ترین خبریںشاممقبوضہ فلسطین

اسرائیل کے شام پر 300 سے زائد حملے، تکفیر الشام کی خاموشی، اور اسرائیلی منصوبہ بندی کا نیا دور

اسرائیلی جارحیت: شام کی فوجی تنصیبات پر مسلسل حملے اور پس پردہ سازشیں

شیعیت نیوز: اسرائیل نے بار بار دعویٰ کیا ہے کہ دمشق صہیونیت کے لیے ایک خطرہ ہے، لیکن بشار اسد کی حکومت کے زوال کے بعد، بغیر کسی ٹھوس جواز کے، اسرائیل نے شام کی فوجی قوت کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اس کے باوجود، تحریر الشام کی قیادت اس پر خاموش ہے، جو اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی سازش میں ملوث ہو سکتی ہے۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے شام کے فوجی اہداف پر فضائی اور توپ خانہ حملے اب تک کے بے نظیر ہیں۔ بشار اسد کی حکومت کے سقوط کے بعد، اسرائیل نے شام کے فوجی مقامات پر 300 سے زیادہ حملے کیے ہیں، جس پر سوال اٹھتا ہے کہ اسرائیل شام کی فوجی قوت کو اس حد تک کیوں نشانہ بنا رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا مقصد ہو سکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: عراقی کتائب حزب اللہ کا شام کی موجودہ صورت حال پر سخت ردعمل

رائیٹرز اور روسیا الیوم کی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ جنوبی دمشق کے متعدد دیہات اور قصبے بھی اسرائیلی فوج کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔ اسرائیلی افواج کی جنوبی دمشق کی طرف پیش قدمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل دمشق کو ایک نیا خطرہ سمجھ رہا ہے۔ علاوہ ازیں صہیونی فوج نے شامی فوجی تنصیبات پر جنگی طیاروں اور ڈرون کے ذریعے حملوں کو نشانہ بنایا ہے۔

اسرائیل کے حملے صرف فضائی بمباری تک محدود نہیں تھے، بلکہ اس نے شام کے اہم فوجی اڈوں، دمشق، حمص، قامیشلی اور لاذقیہ میں بھی اسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے جس کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل کے اقوام متحدہ میں نمائندے ڈینی دانون نے ان حملوں پر کوئی بات نہیں کی، صرف جولان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے اپنی سیکیورٹی کے لیے محدود اقدامات کیے ہیں۔

گولان سے دمشق تک

اسرائیل نے جولان کو ایک اسٹریٹجک مقام کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے، جبکہ جولان کے پہاڑ کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ یہ شام اور لبنان کی سرحد پر واقع ہے اور اسے مشرقی بحیرہ روم میں سب سے بلند اور اسٹریٹیجک مقام سمجھا جاتا ہے۔

ماضی میں اسرائیل نے جولان کو اپنے لیے ایک دفاعی خطرہ قرار دیا تھا، لیکن اب اسرائیل نے ان علاقوں پر حملے شروع کر دیے ہیں جو اسرائیل کی سرزمین کے قریب بھی نہیں ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل شام کی فوجی طاقت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان تمام حملوں اور خطرات کے باوجود دہشت گرد گروہ تحریر الشام نے تاحال چپ کا روزہ رکھا ہے اور اپنی طرف سے شام کے دفاع کے لئے کوئی کوشش نہیں کی ہے۔

بہانہ اور پروپیگنڈا

امریکی اور یورپی ذرائع ابلاغ کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اور صہیونی حکومت کے درمیان پس پردہ ہم آہنگی جاری ہے تاکہ شامی فوجی تنصیبات پر صہیونی فوج کے حملوں کو جائز قرار دیا جائے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے امریکی فوجی سینٹرل کمانڈ کے حوالے سے کہا ہے کہ اسرائیل کے علاوہ امریکہ نے بھی شام کے 80 سے زائد مقامات پر حملہ کیا ہے تاکہ داعش کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع نہ ملے۔

دوسری طرف صہیونی حکام نے کچھ اور بہانہ بنایا ہے۔ صہیونی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ شامی فوج کے ہتھیار دشمن کے ہاتھ لگنے سے بچنے کے لئے حملہ کیا جارہا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق صہیونی حکام کا خیال ہے کہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد بھی ایران اور حزب اللہ کے شام میں اثرات پائے جاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button