اہم ترین خبریںپاکستان

سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا 590 ارب روپے کی خطیر رقم ملنے کے باوجود دہشتگردی روکنے میں ناکام کیوں؟خصوصی رپورٹ

صورتحال مایوس کن بتائی جاتی ہے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا 590 ارب روپے کی خطیر رقم ملنے کے باوجود تہی دست اور بے وسیلہ کیوں ہے

شیعیت نیوز: کالم نگار مریم گیلانی نے لکھا ہے کہ

خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آتا جبکہ ملک من حیث المجموع ایک صبر آ ز ما دور سے نکل چکا دیکھا جائے تو سندھ خاص طور پر کراچی حیدرآباد اور کچھ دیگر علاقے بھی دہشت گردی کی ایک دیگر قسم کا شکار رہے۔

https://mashriqtv.pk/latest/378670/

جو ایک طویل واعصاب شکن دورانیہ گزار کر اس مشکل مرحلے سے نکل چکے نسلی عصبیت سے پیدا نفرتوں کو جڑ سے اکھاڑنے کا مشکل کام ابھی بھی باقی ہے لیکن نجانے کتنا وقت لگے اور کب اس خواب کی تعبیر ممکن ہو صرف یہی نہیں بلکہ ملک مذہبی انتہا پسندی اور قتل مقاتلوں کے ایک نازک دور کا بھی سامنا کرچکاہے

مگر یہ سب بیتے دنوں کی بات ہے اب بھی چیلنجوں کا سامنا ہے ۔

خیبرپختونخوا کے جنوبی حصے ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کا شکار چلے آ رہے ہیں کئی طویل اور اعصاب شکن آ پریشن ہوچکے کچھ عرصہ امن و امان کی صورتحال میں بہتری بھی دیکھی گئی مگر ایک مرتبہ پھر وہی صورت حال پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔

دہشت گردی عود کر کیسے آ ئی ظاہر ہے اس کی کوئی ایک وجہ تو ہو تو ہو نہیں سکتی اس کی بڑی وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ نظر آ تی ہے کہ خیبر پختونخوا میں انسداد دہشت گری کے لئے جو وسائل دیئے گئے تھے ان کا درست استعمال نہ ہوا۔

یہ ایک طویل بحث ہونے کے ساتھ ممکن ہے سیاسی رنگ اختیار کر ے بنا بریں گریز کرتے ہوئے۔

ایک مثال کا سہارا لیتی ہوں کسی کو رسائی ہو اور جب بھی موقع ملے اس کی تصدیق بھی کی جاسکتی ہے قبل اس کے یاد دھانی کرائوں کہ خیبرپختونخوا دہشت گردی کے حوالے سے پہلا یعنی پرخطر صوبہ ہے بلوچستان دوسرا اور سندھ تیسرا جبکہ پنجاب آ خری نمبر پر ہے لیکن انسداد دہشت گری کے جملہ انتظامات میں پنجاب کہیں پر وسائل ہے

کیونکہ پنجاب کو اس ضمن میں جتنے بھی وسائل ملے کوشش کی گئی تھی کہ وہ جدید آ لات اور سازو سامان پر خرچ ہو ان کے پاس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید آ لات موجود ہیں

یہ بھی پڑھئیے: ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردوں کا سہولت کار پولیس کانسٹیبل پشاور سے گرفتار،کالعدم لشکر جھنگوی سے رابطہ میں تھا

جامع ڈیٹا اکٹھا کرکے سنبھالنے کی ذمہ داری نبھائی گئی ہے غرض کافی کام ہوا ہے جبک اس کے مقابلے میں خیبر پختونخوا میں جہاں د ہشت گردی کے خطرات سب سے زیادہ ہونے کے باعث اس سے نمٹنے کے اقدامات بھی خاطر خواہ ہوں۔

صورتحال مایوس کن بتائی جاتی ہے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا 590 ارب روپے کی خطیر رقم ملنے کے باوجود تہی دست اور بے وسیلہ کیوں ہے

اس کا علم نہیںخیبرپختونخوا پختونخوا کو ملنے والے وسائل سے یہ سب کچھ کرنے کی بجائے زیر زمین قید خانے کی فرش سفید قیمتی سنگ مرمر کا بنایا گیا ہے

تہہ خانے کے دہشت گردوں کو بٹھا کر تفتیش کرنے کے کمرے میں دہشت گردوں کو بٹھا نے والی طرف کی دیوار پر ہیٹر اور انگیٹھی کے لئے بہت خوب صورت ڈیزائن کی جگہ بنائی گئی ہے

اور اسے کافی خوبصورت بنایا گیا ہے سوال پر مضحکہ خیز جواب دیا گیا کہ ایسا برابر کے انسانی حقوق کا خیال رکھنے کے باعث کیا گیا انسانی حقوق کا خیال بہت اچھی بات لیکن ہمارے ہاں انسانی حقوق کی کیا صورتحال ہے۔

سب کو اس کا بخوبی علم ہے دہشت گردوں کو تو چھوڑیں سیاسی کارکنوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے دہرا نے کی ضرورت نہیں۔

ملکی سطح پر انسداد دہشت گری کے لئے پولیس سی ٹی ڈی ٹی اور درجنوں ایجنسیاں اپنے اپنے طور پر مصروف عمل ہیں ان کی کارکردگی پر بھی انگلی اٹھا نا مطلوب نہیں

مگر عدم اعتماد کا فقدان اور باہمی تعاون سے گریز وہ خامی ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ملکی سطح پر ارتباط کے لئے نیکٹا کا قیام عمل میں لایا گیا

مگر عدم تعاون اور نیکٹا کو ضرورت کے مطابق فعال نہ بنا کر اسے بھی عضو معطل بنا کر رکھ دیا گیا کچھ ادارے اسے اپنی مرضی پر چلانا چاہتے ہیں تو باقی کسر ڈیپوٹیشن پر آ نے والے افسران پوری کرکے چلے جاتے ہیں۔

اب تو خیر سے یہ پھول بن کھلے مرجانے کو ہے کہ اسے بھی غیر ضروری محکموں کی فہرست میں شامل کرنے کی شنید ہے اگر نہ بھی ہو توبھی اب تک تو یہ ادارہ عضو معطل ہی ہے۔

یہاں پرڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی مداخلت بے جا کا یہ عالم ہے کہ بیرون ملک تکنیکی تربیت کے لئے منتخب ادارے کے افسران کے نام روک کرتین سالہ دور کے آنے والوں کو بھیجا جاتا ہے

جن کی تربیت کا ادارے کو کوئی مستقل و پائیدار فائدہ نہیں ملنا ہوتا ہے ادارے میں ڈنگ ٹپائو قسم کے ایسے افراد بیٹھے ہوتے ہیں جن کو فائل پر دستخط کرتے ہوئے موت پڑتی ہے۔

اس وقت بھی ادارے میں سوائے کارگل کے محاذ پر چہرے پر دو گولیاں کھا کر بچ نکلنے والے ایک غازی کے علاوہ کام میں دلچسپی لینے والوں کی کمی کا شدت سے احساس دلایا جا رہا تھا۔

ادارے میں عجیب و غریب قسم کے فیصلوں کی ایک طویل کہانی ہے جو پھر کبھی سہی ۔

 دہشت گردی کی عفریت سب کچھ نگلنے کو ہے روم جل رہا ہے مگر نیرو بیٹھے بس بانسریاں ہی بجا رہے ہیں

آخر سنجیدہ عملی سے اقدامات کب ہوں گے سانپ کا سر سارے پیرمل کر کب کچلیں گے

یہ غفلت ہی ہے جس کے باعث سانپ آئے روز کسی نہ کسی ٹانگ سے لپٹ کر اسے ڈس لیتا ہے

اور حکمران جنازوں کو کندھا دینے کو ذمہ داری پوری کرنا سمجھ بیٹھے ہیں آخر کب تک؟۔

متعلقہ مضامین

Back to top button