اہم ترین خبریںمقالہ جات

شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینیؒ کا سیاسی سفر

محقق:نثار ترمزی

شہید علامہ عارف حسین الحسینی کو جو عزت، شرف، فضیلت، حثیت، اعتماد، عروج، مقبولیت اور قبولیت حاصل ہے، وہ ابھی تک کسی اور پاکستانی شخصیت کو تا حال میسر نہیں ہے۔
1۔ شہید الحسینی کو امام خمینی سے براہ راست کسب فیض حاصل کرنے کا  موقع ملا۔ آپ اپنی اکثر نمازیں امام خمینی کی اقتدا میں  ادا کرتے تھے۔
2۔ شہید کو امام خمینی نے 1973ء میں وکالت نامہ مرحمت فرمایا۔
3۔ شہید کو امام خمینی کی طرف سے پاکستان میں نمائندہ ولی فقیہ کی تقرری میں اولیت حاصل ہے۔
4۔ امام خمینی نے پاکستان میں فقط شہید حسینی کے افکار کو زندہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔
5۔ امام خمینی نے فقط شہید مطہری اور شہید حسینی کو اپنا بیٹا کہہ کر خراج تحسین پیش کیا۔

یہ چند سطریں لکھ کر واضح کر دیا ہے کہ شہید حسینی کے افکار و حکمت عملی کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے۔ اب موضوع پر بات کرتے ہیں۔ گو کہ گمبٹ کے اجلاس تحریک کی مرکزی کونسل نے قرارداد منظور کرکے سیاست میں  تحریک کے کردار کا تعین کر دیا تھا، لیکن اس کے باوجود شہید حسینی نے مزید آراء حاصل کرنے کے لیے خصوصی سروے کروایا۔

اس میں متعدد سوالات پوچھے گئے۔ ان میں سے بیشتر جواب کو ایک کتابچہ "تحریک کا سیاسی سفر” میں سمو دیا گیا ہے۔ اس میں اہم جواب علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم کا تھا۔ انہوں نے لکھا، اگر تحریک نے سیاست میں حصہ نہیں لینا تو اسے بند کر دینا چاہیئے۔

23 مارچ 1987ء کو وفاق علماء شیعہ پاکستان کے اجتماع کے موقع پر علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم نے تجویز پیش کی کہ تحریک، وفاق، آئی ایس او، آئی او اور جمعیت طلباء جعفریہ کی جانب سے مشترکہ اجتماع منعقد ہو اور اس میں سیاسی منشور پیش کیا جائے۔

شہید نے تجویز کو سراہتے ہوئے اسے 9.10 اپریل کو حیدر آباد سندھ میں ہونے والے تحریک کے تیسرے سالانہ کنونشن میں زیر غور لانے کا وعدہ کیا۔ کنونشن نے اس تجویز کو اس ترمیم کے ساتھ منظور کیا کہ اجتماع فقط تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے پلیٹ فارم سے منعقد کرنا چاہیئے۔

شہید نے اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قرآن و سنت کانفرنس کے عنوان سے لاہور میں چھ جولائی 1987ء کو منعقد کرنے کا اعلان کر دیا اور منشور کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔

یوں منشور "ہمارا راستہ” تحریر ہوا، جسے تحریک کی سپریم کونسل کے اجلاس منعقدہ بھکر میں منظور کیا۔

یہ منشور 6 جولائی 1987ء کو مینار پاکستان کے میدان میں منعقدہ قرآن و سنت کانفرنس میں اعلان کیا۔

یہ بھی پڑھیں: شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی رح کے سیاسی وژن کا تجزیاتی مطالعہ

شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی حیات طیبہ میں ہی جنرل ضیاءالحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کرکے نوے دن میں انتخاب کروانے کا اعلان کر دیا تھا۔ شہید نے اسی حوالے مرکزی کونسل کا اجلاس 8 جولائی 1988ء کو جامعہ اہل بیت اسلام آباد میں طلب کیا تھا، جو شہید کا آخری اجلاس ثابت ہوا۔

اس میں الیکشن حصہ لینے کے لیے حکمت عملی طے کرنے بر بات ہوئی۔ طویل بحث کے بعد انتخاب میں حصہ لینے اور حکمت عملی طے کرنے کا اختیار شہید کو دے دیا گیا۔

(اس اجلاس کا تذکرہ شہید نے اپنی آخری پریس کانفرنس میں، جو پارا چنار میں منعقد ہوئی تھی، کیا تھا۔ یہ پریس کانفرنس شہید کی سیاسی تقاریر پر مشتمل کتاب "اسلوب سیاست” میں چھپ چکی ہے.) بندہ ناچیز کو اس اجلاس میں شرکت کی سعادت حاصل رہی ہے۔ شہید نے اس پریس کانفرنس میں الیکشن کے حوالے سے پوچھے گیے سوالات کے جوابات دیئے ہیں، وہ درج زیل ہیں۔

سوال: کیا عام انتخابات کیلئے آپ عوام کو ایک منشور پیش کرینگے۔؟
جواب: 
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے سال گذشتہ 6 جولائی کو مینار پاکستان پر ایک منشور عوام کو دیا تھا۔ اس منشور میں نظام کے حوالے سے، اقتصاد کے حوالے سے اور جتنے بھی شعبہ ہائے زندگی ہیں، ان کے حوالے سے ہم نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔ اب مزید دوسرے منشور کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ہمیں یہ احساس ہوا کہ اس میں کچھ ترامیم کرنی ہیں یا ان میں چیزیں زیادہ کرنی ہیں تو یہ ہم کرسکتے ہیں، لیکن منشور جو ہم نے 6 جولائی کو مینار پاکستان پر دیا ہے، اس میں ہم نے ایک منشور کمیٹی بنائی تھی، انہوں نے قرآن و سنت اور مراجع عظام کے فتاویٰ کو مدنظر رکھ کر یہ منشور بنایا ہے۔

سوال: کیا آپ خود الیکشن میں حصہ لیں گے۔؟
جواب: 
اس سلسلے میں ابھی 8 جولائی کو گذشتہ جمعہ کو اسلام آباد،  جامعہ اہل بیت میں مرکزی کونسل کی ایک میٹنگ ہوئی، جس میں تفصیلی گفتگو ہوئی اور یہ ہم نے یہ طے کیا کہ ہم نے انتخابات میں حصہ لینا ہے، لیکن ہم نے پہلے بھی ایک سیاسی سیل بنایا تھا، جسے آپ الیکشن سیل کہہ سکتے ہیں۔ اس کو ہم نے کہہ دیا ہے کہ توسیع دیں اور اس میں کچھ اور افراد بھی لے لیں اور حالات پر کڑی نظر رکھیں۔ مطالعہ کرتے رہتے رہیں، پھر ہم دیکھیں گے کہ حکومت کیا اعلان کرتی ہے۔ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوتے ہیں یا غیر جماعتی بنیادوں پر، متناسب نمائندگی وغیرہ تو جس طرح وہ اعلان ہوگا، اسی طرح ہمارا سیاسی فیصلہ ہوگا کہ ہمیں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔
5 اگست 1988ء کو علامہ عارف حسین الحسینی شہید  ہوگئے اور 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کا طیارہ کریش ہوگیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button