اہم ترین خبریںمشرق وسطی

شکست خوردہ اسرائیلی کابینہ میں اختلافات مزید گہرے، صہیونی وزیر کا نئے انتخابات کا مطالبہ

اسرائیل کی ریاست ایک جمہوریت ہے اور اسے اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ اتنے سنگین واقعے کے بعد ہم اس قیادت کے ساتھ کیسے آگے بڑھیں گے جو اس نوعیت کی مکمل ناکامی کی ذمہ دار ہے۔‘

شیعیت نیوز: اسرائیل کی جنگی کابینہ کے وزیر گاڈی آئزن کوٹ نے حماس کو شکست دینے کے کلیدی جنگی مقصد کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے آئندہ مہینوں میں انتخابات کا مطالبہ کیا ہے، جس کے بعد اسرائیلی حکومت کے اندر اختلافات شدید ہوتے نظر آرہے ہیں۔

گاڈی آئزن کوٹ نے اسرائیلی نشریاتی ادارے چینل 12 نیوز کو بتایا ہے کہ جو لوگ مکمل شکست اور قوت ارادی کی کمی کی بات کرتے ہیں وہ سچ نہیں کہتے، اس لیے بڑھکیں مارنے کی ضرورت نہیں۔‘

اسرائیلی وزیر گاڈی آئزن کوٹ کا یہ بیان اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے اس بیان کے کچھ دیر بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے یک بار پھر دہرایا تھا کہ اسرائیل کی فوجی مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ وہ حماس پر ’مکمل فتح‘ حاصل نہیں کر لیتا۔

ان کے تبصرے اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ سے کچھ فوجیوں کے انخلاء کے بعد بھی سامنے آئے ہیں اور عندیہ دیا ہے کہ جلد ہی تنازع کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو گا لیکن آئزن کوٹ نے دعوٰی کیا کہ ایک اسٹریٹجک کامیابی حاصل نہیں کی گئی۔۔۔ ہم نے حماس تنظیم کو ختم نہیں کیا۔

یہ ریمارکس اسرائیل کی مخلوط حکومت کے اندر دراڑ کی تازہ ترین علامت ہیں اور ساتھ ہی نیتن یاہو کے جنگی منصوبوں سے بڑھتی ہوئی عدم اطمینانی کا اظہار بھی۔ 7

اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے فوراً بعد تشکیل دی جانیوالی اسرائیلی جنگی کابینہ میں کچھ ایسے وزراء بھی شامل ہیں جو پہلے ہی ایک دوسرے سے سیاسی رقابت رکھتے ہیں۔

اپنے انٹرویو میں آئزن کوٹ نے کہا کہ اسرائیل کو نئے انتخابات کی ضرورت ہے کیونکہ عوام کا اب وزیر اعظم نیتن یاہو کی قیادت پر اعتماد نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سامراج کے گرد گھیرا تنگ،اسرائیل عالمی تنہائی کا شکار،برطانوی جریدے کی رپورٹ

انہوں نے ملک میں جنگ کے دوران انتخابات کے انعقاد پر خدشات کو بھی مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ عوام میں نیتن یاہو کی حکومت پر اعتماد کا فقدان جنگ کے دوران اتحاد کے فقدان سے کم شدید نہیں ہے۔

’ہمیں انتخابات میں جانے کی ضرورت ہے اور آئندہ چند مہینوں میں الیکشن کروانے کی ضرورت ہے۔

تاکہ اعتماد کی تجدید کی جا سکے کیونکہ فی الحال کوئی اعتماد نہیں ہے۔

اسرائیل کی ریاست ایک جمہوریت ہے اور اسے اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ اتنے سنگین واقعے کے بعد ہم اس قیادت کے ساتھ کیسے آگے بڑھیں گے جو اس نوعیت کی مکمل ناکامی کی ذمہ دار ہے۔‘

یروشلم میں قائم، اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے صدر یوہانان پلیسنر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جنگی کابینہ اتحاد کو ظاہر کرنے کے لیے بنائی گئی تھی

لیکن یہ اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتی کہ پالیسی اور نقطہ نظر میں پہلے سے ہی بڑے اختلافات موجود تھے جو اس وقت سر اٹھارہے ہیں۔

یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات ریوین ہازان نے کہا کہ جیسے ہی غزہ میں جاری جنگ 100 دن مکمل کرے گی، تقسیم لامحالہ ابھرے گی، انہوں نے مزید کہا کہ دونوں کیمپوں کے درمیان حد فاصل دن بہ دن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button