اہم ترین خبریںمقالہ جات

قاسم سلیمانی شہید کا گاوں قناتِ ملک لہو لہو

سردار کو شہید ہوئے چار برس ہوئے مگر طلسماتی شخصیت کا سحر نہیں ٹوٹا

یہ قناتِ ملک گاوں ہے، ایران کے بڑے شہر کرمان کے قریب ہے۔

اخروٹ کے باغات سے معروف اس گاوں میں ایک ایسےشخص نے جنم لیا جس نے بغداد میں شہادت پائی۔

عطر کی شیشی اگر ٹوٹ کر زمین پہ گرے تو اس کی خوشبو چہار سو پھیل جاتی ہے۔

سردار کو شہید ہوئے چار برس ہوئے مگر طلسماتی شخصیت کا سحر نہیں ٹوٹا ۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ شہید کے پاکیزہ خون کی خوشبو ارواح کو معطر کر رہی ہے ۔

سردار کی شہادت کے بعد تہران سے قناتِ ملک تک پنگوڑوں میں پلنے والا ہر بچہ بھی اب مکتبِ سردار سے تعلق رکھتا ہے۔

چوتھی برسی کو شہید القدس سے منایا گیا ۔

القدس کے دشمن نے غزہ میں بچوں کو مارا۔

پھر قناتِ ملک میں بھی بچوں سمیت ایک سو سے زائد افراد کو شہید کے جہاں پہنچادیا۔

آدمی دنیا بھر کی سیاحت کرلے، دنیا میں اپنا لوہا منوالے اپنی ماں اور گاوں سے مانوسیت کو فراموش نہیں کرتا ۔

شہید سردار بھی اپنے گاوں کرمان سے فطرتی محبت کرتے تھے۔

حتیٰ کہ طویل وصیت نامہ میں کمران کے لوگوں سے خطاب کیا ، کرمان کے شہدائے گلزار میں اپنے دوست حسین کے پہلو میں تدفین کی وصیت بھی کی۔

وہ شام  ہوتے یا کہیں بھی میدان جنگ سے واپسی پر آتے۔دو دن ہوں یا چار دن، وہ بیٹھتے نہیں تھے۔ اپنی تمام تر جنگی مہارتوں کے باوجود وہ اپنے ہم جولیوں کیساتھ علاقائی کھیل کھیلتے

یہ بھی پڑھیں:شہید قاسم سلیمانی کے مزار کے قریب دھماکہ 103افراد شہید
ہمیشہ لوگوں سے ملنا اور ان کی مشکلات کو حل کرنا ان کی اولین ترجیح تھی۔جب بھی آتے اپنے دوست شہیدوں کی مزار پر جاتے۔

شہداء کی فیملی، خادمِ مسجد سب سے یہی کہتے میری شہادت کی دعا کریں۔ سارے دوست چلے گئے میں قافلے سے پیچھے رہ گیا ہوں۔

وہ کہتے تھے شہداء کی قبریں نور کا مرکز ہیں۔ معصوم نہیں ہیں لیکن معصوم ہستیوں سے متصل ہیں۔

شہید نے نوجوانوں کی بے روزگاری کے خاتمہ کیلئے ایک فیکٹری بھی بنوائی تھی۔

قنات مَلِک کے امام مسجد کہتے ہیں سردار واقعاً اس مقام کے لائق تھے کہ انہیں شہادت کی موت نصیب ہوئی۔

اگر کسی اور طرح اسے موت آتی تو گھاٹے کا سودا تھا۔

توقیر کھرل

متعلقہ مضامین

Back to top button