سيد مقاومت سید حسن نصر اللہ کے خطاب سے اہم نکات

شیعیت نیوز: حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ حزب اللہ تو 8 اکتوبر سے ’’طوفان اقصى‘‘ کی جنگ میں داخل ہو چکی ہے۔
اگر موضوعی اور منصفانہ نگاہ سے دہکھا جائے تو اس وقت جو کچھ ہمارے جنوب لبنان کے محاذ پر ہو رہا ہے۔ کچھ کم نہیں، یہاں تک کہ جولائی 2006 کی جنگ میں بھی ایسا نہیں ہوا۔
سید حسن نصر اللہ نے ’’بیت المقدس کے راستے پر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی تقریب‘‘ کے دوران اپنی تقریر میں کہا کہ تمام اسرائیلی فوجی مقامات پر مقبوضہ فلسطین کے ساتھ لبنان کی سرحدیں روزانہ حملوں کا نشانہ بنتی ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’اسرائیلی فوج کا ایک تہائی حصہ لبنان کی سرحد پر موجود ہے، اور لبنانی محاذ نے اسرائیلی افواج کے ایک بڑے حصے کو ان کی عسکری قوت سے کم کر دیا ہے کہ جسے غزہ پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔‘‘
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ’’لبنان کے ساتھ سرحد پر کارروائیوں نے اسرائیلی قیادت اور امریکیوں کے درمیان بے چینی، توقع اور خوف کی کیفیت پیدا کر دی ہے‘‘ اور کہا کہ ’’جنوب میں جنگ کے وسیع جنگ میں تبدیل ہونے کا امکان حقیقت پر مبنی ہے۔ اور اس سے دشمن لبنان کی طرف اپنے قدموں کا حساب لگاتا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں : آج امریکہ کی خونی سیاست دنیا پر واضح ہوچکی ہے، جنرل حسین سلامی
سید نصر اللہ نے مزید کہا کہ ’’اسرائیل اگر لبنان پر حملہ کرتا ہے تو سب سے بڑی حماقت کرے گا، اور الاقصیٰ کے طوفان کی لڑائی کے پہلے دن سے، ہمیں امریکی بحری بیڑوں اور امریکی طیاروں سے بمباری کی دھمکی دی گئی ہیں۔ کہ اگر ہم اسرائیلی مقامات کے خلاف کارروائی کرتے ہیں‘‘۔
انہوں نے امریکیوں کو یہ کہتے ہوئے مخاطب کیا کہ ہم نے آپ کے بحری بیڑوں کے لیے تیاری کر رکھی ہے جس سے آپ ہمیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور جن لوگوں نے آپ کو لبنان میں 1980 کی دہائی کے اوائل میں شکست دی تھی، وہ ابھی تک زندہ ہیں۔ اور آج ان کے بیٹے اور پوتے بھی ان کے ہمراہ ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’’لبنانی محاذ پر تمام امکانات کھلے ہیں اور تمام آپشنز میز پر ہیں۔ ہمارے محاذ پر کام میں تیزی اور ترقی کا تعلق غزہ کے واقعات اور لبنان کی طرف دشمن کے رویے سے ہے۔ ہمیں اس کے لیے تیار ہیں۔ مستقبل کے تمام مفروضے، اور ہم کسی بھی وقت اور کہیں تک بھی جا سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’ہم اس جنگ میں آخری فتح کے مرحلے تک ابھی نہیں پہنچے ، لیکن ہم پوائنٹس کے ساتھ جیت رہے ہیں۔‘‘
’’طوفان اقصی‘‘ جنگ کے بارے میں، انہوں نے کہا کہ ’’یہ ایک سے زیادہ میدانوں میں پھیل چکی ہے، اور اسرائیل کے خلاف جنگ کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے، اور ہمیں ان تمام شہداء پر فخر ہے جو صیہونیوں کے خلاف جنگ کے دوران درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ ‘‘ انہوں نے یمنی اور عراقی مقاومت و افواج کی تعریف کی جنہوں نے ’’الاقصیٰ طوفان‘‘ آپریشن میں حصہ لیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’اسرائیلی حکومت کے نسل پرستانہ، انتہا پسندانہ اور احمقانہ اقدامات فلسطینی عوام کے حالات کو ابتر کرنے کا باعث بنے‘‘۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’تقریبا 20 سال سے غزہ میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ ایک دم گھٹنے والے محاصرے میں زندگی گزار رہے ہیں، اور ساری دنیا خاموش ہے‘‘
انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ آخری ایام میں صہیونیوں کی جانب سے ’’مسجد اقصیٰ کی قدسیت واحترام کو جن خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا وہ جدید تاریخ میں بے مثال ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’فلسطینیوں پر سخت دباؤ ڈالنے والی فائلوں میں قیدیوں کا مسئلہ ، قدس شریف کی حرمت ، غزہ کا محاصرہ اور مغربی کنارے میں آباد کاری کے نئے منصوبے ہیں۔‘‘
سید حسن نصر اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ ’’الاقصیٰ طوفان آپریشن کا فیصلہ اور اس پر عمل درآمد مکمل طور پر فلسطینی تھا‘‘ اور مزید کہا کہ ’’حماس نے الاقصی طوفان آپریشن کی منصوبہ بندی کو خطے میں ’’محور مقاومت‘‘ کی جماعتوں سے بھی پوشیدہ رکھا:‘‘ ہمیں بھی اس آپریشن سے متعلق تفصیلات معلوم نہیں تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’ ہمیں اس بات پر پریشان نہیں ہوئی کہ حماس نے آپریشن الاقصیٰ طوفان کے منصوبے کو چھپایا، اور یہ حقیقت کہ اس آپریشن کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ جنگ مکمل طور پر فلسطینی ہے۔‘‘
انہوں نے وضاحت کی کہ ’’الاقصیٰ طوفان آپریشن کا کسی علاقائی یا بین الاقوامی ایشو سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘ انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’مکمل رازداری کے عنصر نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کی شاندار کامیابی کو یقینی بنایا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’حقیقی فیصلہ ساز مقاومت کے رہنما، مقاومت کے لوگ اور مقاومت کے مجاہدین ہیں۔‘‘
سید حسن نصر اللہ نے نشاندہی کی کہ ’’الاقصیٰ طوفان کی جنگ اسرائیل پر اب اور مستقبل میں اپنے اثرات چھوڑے گی اور اسرائیلی وجود میں سیکورٹی، فوجی، سیاسی، نفسیاتی اور اخلاقی زلزلے کا باعث بنے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’الاقصیٰ طوفان کی جنگ نے دشمن کی کمزوری کو ظاہر کیا اور یہ کہ اسرائیل واقعی مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔‘‘
انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’الاقصیٰ طوفان کی جنگ کے پہلے دنوں سے ہی اسرائیل نے امریکہ سے نئے ہتھیاروں کی درخواست کی، کیا واقعی یہ ایک مضبوط ملک ہے؟ جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے؟‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’یہ الاقصیٰ طوفان کی جنگ کے پہلے گھنٹوں سے ہی واضح تھا کہ دشمن ہار گیا اور ہار گیا۔‘‘
سید حسن نصر اللہ نے نشاندہی کی کہ ’’یہ صہیونی دشمن ہی تھا کہ جس نے مقاومت سے نو آبادیوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اسرائیلی آباد کاروں کے خلاف قتل عام کیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی حکومتیں لبنان اور فلسطین میں مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ اپنے تجربات سے سبق نہیں لے رہی ہیں،‘‘ اور اس پر غور کیا کہ ’’اسرائیل غزہ میں ایسے اعلی اہداف کا اعلان کرتا ہے جو وہ کبھی حاصل نہیں کر سکتا، اور حماس کو ختم کرنے کا اسرائیلی ہدف تو ناقابلِ حصول ہے۔‘‘ انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’اسرائیلی فوج ابھی تک غزہ میں کوئی حقیقی فوجی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’دشمن اس غلطی کو دہرا رہا ہے جو اس نے 2006 کی جنگ میں کی تھی، جب اس دشمن نے اپنی حیثیت وطاقت سے اعلیٰ اہداف طے کیے تھے اور پھر انہیں ترک کرنے پر مجبور کیا گیا تھا، اور آج فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسرائیلیوں کی حماقت کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘
سید حسن نصر اللہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ ’’جنگ غزہ کی فتح اور اسرائیل کی شکست کے ساتھ ختم ہو جائے گی،” اور کہا: "اسرائیلی دشمن غزہ میں ایک بڑا آپریشن کرنے سے محتاط ہے کیونکہ وہ خوفزدہ، بے بس اور ناکام ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’مصر، شام، اردن اور لبنان کی منافع ملی کا تقاضا ہے کہ اسرائیل یہ جنگ ھارے ۔ اوف فلسطینی مقاومت یہ جنگ جیتے۔ اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ امریکہ کو ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اسرائیل اپنے وحشیانہ حملوں سے روکے۔ اور جنگ بندی ہو ۔ غزہ کے خلاف مسلسل جارحیت کا زمہ دار واشنگٹن ہے جسے اس خطے کے لوگوں کے خلاف جو کچھ کیا گیا ہے اس کا جوابدہ ہونا چاہیے، اور اسرائیل محض ایک انتظامی آلہ کار ہے۔‘‘
سید نصر اللہ کا خیال تھا کہ "عراقی دھڑوں کا امریکی اڈوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ دانشمندانہ اور درست ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’’طوفان الاقصیٰ کی جنگ انسانیت کی جنگ ہے جس میں وحشییت و بربریت کی نمائندگی امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کرتے ہیں‘‘
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ’’پہلا ہدف جس کے لیے ہمیں دن رات کوشش کرنی چاہیے، وہ غزہ میں جنگ کو روکنا ہے، اور دوسرا ہدف حماس کے لیے یہ جنگ جیتنا ہے،‘‘ اور اس بات پر زور دیا کہ ’’غزہ کی فتح میں لبنان کا قومی مفاد ہے، اور حماس کی فتح خطے کے دوسرے ممالک کے قومی مفاد میں ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’عرب اور اسلامی حکومتوں کو غزہ کے خلاف جارحیت کو روکنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے عرب اور اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں، سفیروں کو واپس بلا لیں اور تل ابیب کو تیل کی برآمدات بند کردیں۔
سید نصراللہ نے نشاندہی کی کہ ’’یمن کی مقاومت اور یمنی بہادر عوام کے موقف کو سراہتے ہوئے کہا کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود آپ کے میزائل اور ڈرون ایلات اور دیگر اسرائیلی اڈوں تک پہنچ جائیں گے۔‘‘