اہم ترین خبریںمقالہ جات

غزہ کے ننھے پھول اور مسلم امہ کا سکوت | علامہ ڈاکٹر شبیرحسن میثمی

اسرائیل کو امریکہ اور اس کے حواریوں کی آخر کب تک پشت پناہی حاصل رہے گی۔؟ جنگ کا طول پکڑنا صیہونی ریاست کے حق میں نہیں

شیعیت نیوز: دنیا کے گنجان ترین رہائشی علاقے غزہ پر اسرائیلی بمباری ایک بہت بڑے انسانی المیے کو جنم دے رہی ہے، غزہ میں فی اسکوائر کلومیٹر 9000 افراد رہائش پذیر ہیں جن کی معاشی و سماجی صورتحال کئی دہائیوں کے محاصرے کی وجہ سے پہلے ہی ابتر ہے، غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جاری معصوم فلسطینیوں کا قتل عام مغربی ممالک کی ایماء پر ہو رہا ہے، امریکی صدر جوبائیڈن نے جس قدر عجلت اور تیزی کے ساتھ اسرائیلی حکومت کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی، اس غیر انسانی رویے سے ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ بوڑھا شیطان اپنا اسلحہ بیچنا چاہتا ہے، اس مقصد اور مفاد کے حصول کی خاطر اسے کسی عالمی قوانین یا انسانی حقوق کی کوئی پرواہ نہیں، یہی مکروہ کھیل امریکی اسٹیبلشمنٹ روس یوکرین جنگ میں کھیل رہی ہے، اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا دھجیاں اڑا رہا ہے لیکن اسے مغربی ممالک کی طرف سے روکنے کی بجائے الٹا اس کی پشت پناہی اور غیر مشروط سپورٹ کی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے جنیوا کنونشن کی قراردادیں صرف اور صرف مغربی ممالک کے سیاسی مقاصد کے حصول اور تحفظ کے لیے استعمال ہوتی ہیں، فلسطین اور کشمیر پر ڈھائے جانے والے مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ چپ سادھے ہوئے ہے، اس ساری گھمبیر صورتحال پر اسلامی ممالک میں سناٹا چھایا ہوا ہے، اس ظلم پر مسلم حکمرانوں کا سکوت بہت ہی کربناک اور افسوس ناک ہے، اسرائیل کی غزہ پر جاری شب و روز بارود کی بارش سے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے، اب تک شہداء کی تعداد 7200 سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں 4500 سو معصوم بچے اور خواتین ہیں، سینکڑوں افراد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے لاپتہ ہیں، جن کی زخمی ہونے کی وجہ سے زندگی کی امید ختم ہو چکی ہے، جبکہ زخمیوں کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ ہے، پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کو آگے بڑھ کر اسرائیلی جارحیت کو فی الفور روکنا ہوگا۔

مسلمین جہان فلسطینی مظلومین کی سدا پر تب جاگیں گے، جب تک خونخوار اسرائیل اپنی درندگی سے کئی نہتے اور معصوم فلسطینیوں کو خون میں نہلا چکا ہوگا مگر تب تک بہت دیر ہوجائے گی، غاصب صہیونی ریاست نے اب تک غزہ میں تیس مساجد، 12 اسپتال درجنوں اسکولز اور چرچ سمیت ایک لاکھ رہائشی یونٹس کو نشانہ بنا کر ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے، ان تباہ شدہ عمارتوں کے نیچے دبی پامال شدہ لاشوں سے تعفن پھیلنا شروع ہوگیا ہے، اسپتالوں میں ایمرجنسی لائے جانے والے زخمیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی ہے، جن متاثرہ افراد کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے وہ بھی اب دواؤں کے ناپید ہونے سے ختم ہونے والی ہے کیونکہ مصر اسرائیل رفاح بارڈر دونوں اطراف سے نہیں کھولا جا رہا، اشیائے خوردونوش کی شدید قلّت پیدا ہونے سے بھوک و پیاس سے اموات کا خطرہ بھی لاحق ہونا شروع ہوگیا ہے۔

اسرائیل خوف اور گھبراہٹ کے عالم میں حماس کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتا، اپنی اس کمزوری اور خفت کو مٹانے کے لیے وہ سویلینز پر بے دردی سے بمباری کر رہا ہے، جہاں پر مغربی ممالک بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور فرانس اس کی ہر طرح سے پشت پناہی اور سپورٹ کر رہے ہیں اور شریک جرم ہیں، اسی طرح متحدہ عرب امارات، ترکی، اردن اور مصر بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں جن کی زبانیں استبدادی قوتوں کے سامنے گنگ ہوچکی ہیں، اس کٹھن اور خون آلود مرحلے میں عرب ممالک کا کردار سب سے اہم اور کلیدی تھا کہ مسلم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ فلسطینی عوام کے ہمسائے اور عربی النسل بھی ہیں، کیا ان سب کو خون آلود لاشوں کے ساتھ بلبلاتے ہوئے معصوم بچے نظر نہیں آ رہے، ننھے معصوم پھول کب تک بارود کی زد پر رہیں گے، چیختی اور چلاتی ہوئیں ماں، بہنوں اور بیٹیوں کی آہ و بکا سنائی نہیں دے رہی، مائیں اپنے بچوں کے ہاتھوں پر نام لکھ رہی ہیں کہ بمباری کی صورت میں ان کی لاشوں کو شناخت کیا جا سکے، مسلم حکمرانوں کی غیرت و حمیت کہاں کھو گئی ہے۔

امن و امان کے نام نہاد ٹھیکیداروں اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا دم بھرنے والی تنظیموں کا ان غیر انسانی کاروائیوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا انتہائی افسوس ناک اور تشویشناک ہے، مسلم دنیا کو آگے بڑھ کر اسرائیلی جارحیت کو دو ٹوک اور واضح ردعمل کے ساتھ روکنا چاہیئے، جس طرح سے اسرائیل غزہ پر سر عام ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہا ہے اسے اس پر شدید ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا، حماس میں شامل جوانوں کی اکثریت ان متاثرین پر مبنی ہے جن کے والدین ماضی میں اسرائیلی جارحیت سے شہید ہوئے ہیں، خوف کی فضاء میں اسرائیل بھی مزید پنپنے نہیں پائے گا، اگر مشرق وسطی میں یہ قضیہ فوری طور پر ختم نہیں ہوتا تو پھر اسرائیل کے خلاف لبنان سے مزاحمت بڑھ جائے گی جس کی تاب لانا اسرائیل کے نڈھال وجود کے بس کی بات نہیں ہے، لبنانی ملائیشیا کے پاس دو لاکھ قریب اور دور تک مار کرنے والے میزائلوں کا ذخیرہ، ڈرونز اور اینٹی ٹینک و طیارہ شکن میزائل بھی موجود ہیں،۔

اسرائیل کو امریکہ اور اس کے حواریوں کی آخر کب تک پشت پناہی حاصل رہے گی۔؟ جنگ کا طول پکڑنا صیہونی ریاست کے حق میں نہیں، اسرائیل نفسیاتی طور پر جنگ ہار چکا ہے، آخری اور فیصلہ کن معرکہ اسرائیل کی گلیوں میں ہوتا نظر آ رہا ہے، غزہ کی زمینی صورتحال کے بارے میں امریکی و اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیاں تسلی بخش معلومات حاصل نہیں کر پا رہی ہیں، ایک غزہ اوپر ہے اور اس کی ایک لیئر اور تہہ زیر زمین ہے، اوپر کے غزہ کو اسرائیلی فضائیہ تہہ و بالا کر رہی ہے لیکن یہ غاصب صہیونی افواج جونہی اندر داخل ہونے کی غلطی کرے گی تو حماس اسرائیلی رجیم کو ملیا میٹ کر دے گی، حق و باطل کی اس جنگ میں تاریخ فیصلہ کرے گی کہ کونسی اقوام اور ممالک کس کے ساتھ کھڑے تھے، مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یا غاصب اور قابض اسرائیلیوں کے ساتھ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button