شہداء کی یاد کو زندہ رکھنا جہاد ہے، شہداء نمونہ عمل ہیں، آیت اللہ خامنہ ای
شیعیت نیوز: رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ مہارت اور جاذب طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے شہداء کی یاد اور طرززندگی کو جوانوں اور نئی نسل تک منتقل کرنا چاہئے۔
رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے سبزوار اور نیشابور سے تعلق رکھنے والے شہداء کی یاد میں ہونے والی کانفرنس کے منتطمین نے ملاقات کی۔
ملاقات کے دوران رہبر معظم نے کہا کہ شہداء کی یاد کو زندہ رکھنا بھی ایک بڑا جہاد ہے۔ ان کی یاد منانا شہدائے کربلا کی یاد منانے کے مترادف ہے۔ نئی اور جوان نسل کو شہداء کی قربانیوں اور طرزندگی سے آگاہ کرنے کے لئے جدید اور جاذب طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔
نیشابور اور سبزوار کے شہداء میں یاد کانفرنس کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ باطل قوتوں نے تاریخ میں ہمیشہ شہداء کی یاد اور قربانیوں کو مٹانے کی کوشش کی ہے اسی شہدا کی یاد منانا اور تقریب منعقد کرنا جہاد سے کم نہیں ہے اس کام کی قدردانی ہونا چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں : مغرب کو شام سے متعلق پالیسی کا سرے سے جائزہ لینا چاہیئے، زہرہ ارشادی
انہوں نے کہا کہ سبزوار اور نیشابور کی تاریخی اور علمی شاخت رکھنا جوانوں کا وظیفہ ہے۔ یہ دونوں شہر ایران کے تاریخی شہر ہیں۔ فضل بن شاذان سے لے کر حاج ملاھادی سبزواری تک ایک ہزار سال کے دوران متعدد علمی اور معنوی شخصیات نے ان شہروں کا نام روشن کیا۔ ان کے بارے میں جوانوں کو جاننے کی ضرورت ہے۔
رہبر معظم نے مزید کہا ان دونوں شہروں سے تعلق رکھنے والے شہدا نے عرفان اور معنویت میں خاص مقام حاصل کیا۔ سبزوار سے شہید ناصر باغانی نے باییس سال کی زندگی میں اور نیشابور سے شہید نور علی شوشتری نے ادھیڑ عمر میں مجاہدت کے ذریعے حکمت اور معرفت سے بھرپور زندگی کی جس کا اظہار ان کے وصیت ناموں سے ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہدا کی تعریف ممکن نہیں ہے ان کی زندگی کو نمونہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ ابتدائے انقلاب کے شہداء شوشتری، باغانی اور برونسی سے لے کر حالیہ ایام میں شہید ہونے والے الداغی تک سب ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں۔ چنانچہ شہید حمید رضا الداغی نے اپنے کارنامے سے ہمیں دکھادیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے شہداء کی زندگی کی یادداشتوں کو مزید تقویت دینے اور یادداشت لکھنے میں مہارت سیکھنے پر بھی تاکید کی۔