دنیا

ریاض اور تل ابیب کے درمیان مذاکرات کی پس پردہ کہانی، صہیونی چینل کی زبانی

شیعیت نیوز: صہیونی چینل نے ریاض کی جانب سے تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کے لئے پیش کردہ شرائط سے پردہ اٹھایا ہے۔ مذاکرات کی میز پر موساد کے سربراہ، امریکی وزیرخارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر کی موجودگی بڑی پیشرفت کی دلیل ہے۔

رپورٹ کے مطابق عالمی ذرائع ابلاغ میں سعودی عرب اور صہیونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے کی کوششوں کے بارے میں خبریں زیرگردش ہیں۔ ایسے میں عبرانی میڈیا نے سعودی عرب کی جانب سے اس حوالے سے پیش کردہ شرائط کے بارے میں کچھ حقائق کا انکشاف کیا ہے۔

فلسطینی ویب سائٹ شہاب نیوز کی رپورٹ کے مطابق صہیونی چینل 12 نے صہیونی اعلی حکام کی سعودی اہلکاروں کے ساتھ مذاکرات کے آخری دور میں ہونے والی پیشرفت سے پردہ اٹھایا ہے۔

چینل 12 نے خبر دی ہے کہ مذاکرات کے آخری دور میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا، امریکی وزیرخارجہ اور امریکہ قومی سلامتی کے مشیر نے بھی شرکت کی ہے۔ مذاکرات کے نئے دور میں تعلقات برقرار کرنے کے لئے سعودی عرب کی جانب سے رکھی گئی شرائط پر گفتگو کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں : ایران، عراق کے اندر بڑی کارروائی کر سکتا ہے، عراقی مشیر قاسم الاعرجی کادورۂ تہران

چینل کے مطابق سعودی عرب ابتدائی شرائط کے طور پر تل ابیب اور واشنگٹن کے اعلی حکام سے کہا ہے کہ فلسطین میں دو ریاست کے قیام کے لئے صہیونی حکومت اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات شروع کئے جائیں۔

علاوہ ازین سعودی عرب نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ سابق صدر ٹرمپ کے دور میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کو بائیڈن انتظامیہ نے معطل کیا تھا۔ مذکورہ معاہدے کو فوری طور پر بحال کرکے عملدرامد یقینی بنایا جائے۔

چینل 12 نے مزید انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب امریکہ سے اپنے ایٹمی پروگرام کی حمایت اور تکمیل میں تعاون چاہتا ہے۔

صہیونی چینل کے مطابق امریکہ نے بھی تل ابیب کے صہیونی حکمرانوں سے کہا ہے کہ صلح کے لئے فضا سازگار کرنے کے لئے ماحول بہتر بنایا جائے۔ اس حوالے سے متنازعہ عدالتی اصلاحات کو منصوبے پر نظرثانی کیا جائے تاکہ مقبوضہ علاقوں میں جاری کشیدگی کم ہوسکے۔

چینل نے صہیونی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دونوں کے درمیان تعلقات قائم ہوجائیں تو تل ابیب کی جانب سے امریکہ کی پشت پناہی کے ساتھ ایران کی جوہری تنصیبات کو حملے کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button