لبنان

مغربی ممالک صرف اپنے مفادات کا سوچتے ہیں، عدنان منصور

شیعیت نیوز: سابق لبنانی وزیر خارجہ عدنان منصور نے کہا کہ خطے کی سلامتی اس کے عوام کی مرہون منّت ہے نہ کہ مغربی طاقتوں کی، لہٰذا خطے کے ممالک کے اعتماد کے ساتھ تعمیری تعاون ہی خطے میں امن و استحکام کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔

ایرانی صدر کے حالیہ دمشق کے دورے سے جہاں ایک طرف مزاحمتی محاذ کی فتح سب پر عیاں ہوئی ہے، وہاں خطے میں کشیدگی میں کمی اور پہلے سے زیادہ کثیر الجہتی محاذ کے ظہور کے آثار بھی نمایاں ہو چکے ہیں۔

سابق لبنانی وزیر خارجہ عدنان منصور کے ساتھ ایک پریس انٹرویو کیا ہے جس کا متن مندرجہ ذیل ہے:

سوال: آپ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورۂ شام، کہ جس میں اعلیٰ حکام اور ماہرین بھی شریک تھے، کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اور اس سفر کے کیا پیغامات ہو سکتے ہیں؟

عدنان منصور: یقیناً ایرانی صدر کا دورۂ دمشق ایک اہم دورہ ہے، خاص طور پر چونکہ یہ دورہ 2010ء یعنی تیرہ سال بعد پہلا دورہ ہے اور اسی وجہ سے یہ انتہائی اہمیت کا حامل دورہ ہے۔ ان سالوں کے دوران، خطے میں اقتصادی، سیکورٹی اور سیاسی معاملات سمیت نظامی تمام شعبوں میں وسیع تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، لہٰذا ایران اور شام کے قریبی تعلقات کے پیش نظر یہ دورہ بہت اہم ہے اور ہم جانتے ہیں کہ دمشق اور تہران کے درمیان اچھے تعلقات 1979ء میں انقلابِ اسلامی کے بعد سے شروع ہوئے جب شام میں اس وقت مرحوم صدر حافظ اسد کا دور تھا اور وہ ایران کے شانہ بشانہ کھڑے تھے اور اس وقت کے شامی مرحوم صدر انقلابِ اسلامی کی اہمیت اور مسئلۂ فلسطین سمیت خطے میں منصفانہ مقاصد کیلئے مستقبل کے معاملات سے بخوبی واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیں : سعودی عرب سے حج کی براہ راست پروازوں کیلئے بات چیت کر رہے ہیں، اسرائیل

لہٰذا، جب ایران کے خلاف جنگ مسلط کر دی گئی تو ہم نے دیکھا کہ اس جنگ میں عرب ممالک بھی شریک اور عراقی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور عراقی حکومت کو رقم اور ہر طرح کی مدد فراہم کر رہے ہیں، لیکن شام کا مؤقف مختلف تھا اور شام نے انقلاب اور ایران کے نظام کی حمایت کی، کیونکہ سوریہ اسلامی جمہوریہ سے مقابلہ کرنے کیلئے بیرونی اور علاقائی طاقتوں کے مذموم مقاصد سے بخوبی واقف تھا۔

شام کی یہ تاریخی حکمت عملی ایرانیوں کو اچھی طرح یاد ہے اور اسی لئے جب شام کو 2011ء سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا تو سب نے دیکھا کہ کس طرح ایران اپنی تمام تر سفارتی، فوجی، لاجسٹک اور اقتصادی طاقت کے ساتھ شام کے ساتھ کھڑا رہا اور ایران نے شام کو سوائے ترقی کے کچھ نہیں دیا ہے، لہذا ایرانی صدر نے دمشق کا دورہ ایسی حالت میں کیا کہ جب خطے میں وسیع تر تبدیلیاں رونما ہوتے نظر آ رہی تھیں، ان تبدیلیوں میں عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا اور شام کی عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت کا امکان شامل ہے۔ یہ اتحاد شامی عوام کی بیرونی طاقتوں کے مذموم عزائم کے خلاف مزاحمت کا نتیجہ ہے اور عرب اور علاقائی طاقتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ دمشق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس ملک کی حکومت کا تختہ الٹا نہیں جا سکتا، لہذا اس کے ساتھ بات چیت کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

سوال: ایران ہمسایہ ممالک سمیت عرب اور مغربی ممالک کے دوستانہ دوروں میں سرفہرست ہے، آپ کے خیال سے ان دوستانہ دوروں سے ایران کو کیا فائدہ ہوگا؟

عدنان منصور: ایرانی صدر نے شام کا دورہ ایسے حالات میں کیا ہے جب اس ملک نے عرب ممالک بالخصوص خلیج فارس کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات دوبارہ شروع کئے ہیں۔ یہ امر خطے کے بہتر مستقبل کیلئے سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ ایران اور عرب ممالک کے درمیان کسی بھی اچھے تعلقات سے خطے کے امن و استحکام کو تقویت ملے گی۔

خطے کی سلامتی اس کی عوام کی مرہون منّت ہے نہ کہ مغربی طاقتوں کی، لہٰذا خطے کے ممالک کے اعتماد اور خیر سگالی کے ساتھ تعمیری تعاون ہی خطے میں امن و استحکام کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے اور عرب ممالک کے درمیان کسی بھی تنازعات اور اختلافات، خطے کے پورے ممالک اور ایران کو نقصان پہنچنے کا سبب بن سکتے ہیں، لہٰذا خطے میں مغرب کی موجودگی نہ صرف استحکام کا باعث بن رہی ہے بلکہ خطے کی طاقتوں پر اثر و رسوخ اور دباؤ ڈال کر یہ ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات کی بنیاد بنتی ہے اور مشرق وسطیٰ میں امن وامان کی فضاء قائم کرنے کیلئے مغربی طاقتوں خصوصاً امریکی وجود سے آزاد ہونا چاہیئے۔

مغرب خطے کے لوگوں کے مفاد کیلئے نہیں بلکہ اپنے مفادات کیلئے کام کرتا ہے اور اپنے مفادات پر ہم سب کو قربان کرنے کیلئے تیار ہے۔ لہٰذا وہ ایران اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات یا شام اور عرب ممالک کے مابین تعلقات نہیں چاہتا۔ ’’مغرب تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی سے خطے کے ممالک کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ وہ ان ممالک کو کمزور اور خود پر منحصر اور اپنی پالیسی ان پر مسلط کر سکے، لہٰذا ایرانی صدر ڈاکٹر رئیسی کا دورۂ شام ایک تاریخی دورہ ہے اور یقیناً اس دورے سے اقتصادی، سیاسی اور فوجی معاہدے طے پا جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button