اہم ترین خبریںپاکستان

سکیورٹی ادارے کرم ایجنسی میں افغان فورسز کی جانب سے فائرنگ اور دراندازی کا جواب دیں ، علامہ جہانزیب جعفری

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی طور پر تسلیم سرحد ڈیورنڈ لاین کا آغاز 1893 میں ہوا تو کرم کے حدود خاص کر خرلاچی اور میدان کے علاقے میں بڑی واضح نشاندہی ہوگیی

شیعیت نیوز: صوبائی صدر مجلس وحدت مسلمین خیبرپختونخواہ علامہ جہانزیب علی جعفری ،صوبائی جنرل سیکریٹری شبیر حسین ساجدی و دیگر نے خیبرپختونخواہ کے ضلع کرم میں پاک افغان بارڈر پر ہونے والے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے گہرے دکھ و تشویش کا اظہار کیا ہے اور پاک فوج کے ایک جوان کی شہادت پر غمزدہ لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کی اور مقامی زخمی لوگوں کی جلد شفایابی و ملکی سلامتی کی دعا کی۔

انہوں نے کہا ہے پورے 2670 کلومیٹر ڈیورنڈ لائن میں سب سے واضح نشاندھی کرم کے ساتھ سرحد پر ہے۔ 1846 میں جب یہاں افغان امیر دوست محمد خان نے کرم کو ایک الگ ولایت یا صوبے کی حیثیت دی اور اپنے ایک چہیتے بیٹے کو یہاں کا والی بنایا تو اس ولایت کا حدود اربعہ متعین تھا۔ اس خطے میں سرکاری بارڈر سے ہٹ کر بھی قوموں کے اپنے حدود جانے پہچانے ہیں۔اس علاقے میں طوری قوم کا حد ملکیت کئی ہزار سال سے متعین ہے۔ انگریزوں نے دوسری اینگلو افغان جنگ 1878 میں کرم کو اپنے تاریخی حدود اربعہ کے ساتھ معاہدہ گندمک کے تحت افغانستان سے آزاد کرایا تو اس وقت افغان امیر شیر علی خان اور اسکے بعد سردار یعقوب خان اور بعد کے امیر عبدالرحمن سے معاہدے کرواے کہ کرم کے حدود کا احترام کرینگے اور کسی قسم کی مداخلت نہیں کرینگے۔

یہ بھی پڑھیں: قطر ورلڈ کپ 2022؛ عرب شہریوں نے اسرائیلی میڈیا کو دیا بڑا جھٹکا

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی طور پر تسلیم سرحد ڈیورنڈ لاین کا آغاز 1893 میں ہوا تو کرم کے حدود خاص کر خرلاچی اور میدان کے علاقے میں بڑی واضح نشاندہی ہوگیی۔ خرلاچی کے قریب سوختہ چھاؤنی اور میدان میں لکہ تیگہ تاریخی لینڈ مارک بنے۔ اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ خرلاچی کی زمینوں کو سیراب کرنے والے ندی کا بند افغان حدود میں آیا تو اس مشکل کو حل کرنے کے لیے وائسرائے ہند اور امیر عبدالرحمان کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا جسکا ریکارڈ سرکاری اسناد میں موجود ہے۔ اسکے تحت افغان امیر نے ضمانت کروا دی کہ ندی کے بند میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ایک بار پھر 1919 تیسرے اینگلو افغان جنگ کے بعد امیر امان اللہ خان سے اس بارڈر کو تسلیم کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: انور علی اخونزادہ کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ تھی جسے کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا، علامہ ساجد نقوی

ان کامزید کہنا تھا کہ حالیہ متنازعہ اور بے مفہوم بارڈر فنسنگ کے دوران یہ پاکستانی حکام کی نالائقی تھی کہ ڈیورنڈ لائن کی واضح نشاندھی کو نظر انداز کرکے باڑ لگوایا اور اس سلسلے میں مقامی قبائل کے احتجاج کو بھی نظر انداز کیا۔ مقامی قبائل نے اب مجبور ہوکر افغانستان پر مسلط کیے گئے خونخوار طالبان کے تجاوز کے خلاف اقدام کیا جو درحقیقت پاکستانی فوج کا فرض تھا۔ہم ملکی سلامتی اور سرحدوں کی نگران فوج اور انتظامی حکام سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ اگر وہ واقعی سرحدوں کے رکھوالے ہیں تو گیارہ سو جریب تسلیم شدہ اور کاغذات مال میں متعین شدہ سرزمین پاکستان پر سودے بازی نہ کرے اور اسکو آزاد کرانے میں مقامی قبائل کی حمایت اور مدد کرے۔ ورنہ انکا یہ دعوی کہ ہم ایک ایک انچ سرزمین کے رکھوالے ہیں بے معنی رہ جایگا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button