دنیا

جنگ یوکرین میں امریکہ اور نیٹو کے جاسوسی نیٹ ورک کا پردہ فاش

شیعیت نیوز: امریکہ کے سابق عسکری اور خفیہ افسران نے، جنگ یوکرین کو روس کے خلاف امریکہ کی نیابتی جنگ یا پراکسی وار قرار دیا ہے۔

روزنامہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سابق امریکی فوجی اور انٹیلی جنس افسران کا کہنا تھا کہ یوکرین میں امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں کی موجودگی کا مطلب ہے یہ ہے کہ امریکہ روس کے خلاف پراکسی وار لڑ رہا ہے۔

روزنامہ نیویارک ٹائمز نے جنگ یوکرین میں امریکہ اور مغربی ملکوں کے جاسوسی نیٹ ورک کے اقدامات کا پردہ فاش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں قائم اڈوں کے ذریعے یوکرین کو انٹیلی جنس سپورٹ فراہم کی جارہی ہے۔

جنگ یوکرین کے آغاز کے بعد سے امریکہ اور مغربی ممالک، یوکرین کو اسلحے کی فراہمی اور روس کے خلاف پابندیوں میں اضافہ کرکے ، اس جنگ میں شدت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

روس کئی بار خبردار کرچکا ہے کہ امریکہ اور یورپ کی جانب سے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کے نتیجے میں یہ تنازعہ شدت اختیار کرجائے گا اور اس کے ناقابل تصور نتائج برآمد ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں : ایٹمی مذاکرات شروع ہونے پر اسرائیلی حکام میں کھلبلی مچ گئی

دوسری جانب نیٹو کے سیکریٹری جنرل کہا ہے کہ جنگ یوکرین کے دوران نیٹو اپنی رزرو فورس کی تعداد میں تیس سے چالیس ہزار تک اضافہ کرنا چاہتا ہے۔

نیٹو اور اس کے اتحادی اب تک جنگ یوکرین میں براہ راست مداخلت سے گریز کرتے رہے ہیں لیکن اسلحہ ، گولہ بارود اور ایندھن مسلسل فراہم کر رہے ہیں ۔ اس درمیان نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینس اسٹولٹن برگ نے میڈرڈ اجلاس سے قبل صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم کے رکن ممالک یوکرین کے لیے مزید فوجی امداد بھیجنے کی منظوری دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اسٹولٹن برگ کے بقول ، نیٹو کی جانب سے یوکرین کو تقویت شدہ امدادی پیکج دیا جائے گا جس میں محفوظ رابطہ نظام اور اینٹی ڈرون سسٹم شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو نے یوکرین کی حمایت کی غرض سے یوکرینی فوج کو نیٹو کے پاس موجود ہتھیاروں سے لیس کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

نیٹو کے ‎سیکریٹری جنرل کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ہسپانوی اخبار ایل پائس کا کہنا ہے کہ نیٹو کے رکن ممالک میڈرڈ اجلاس کے دوران یورپ میں بڑے پیمانے پر فوجی تعینات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اخبار کے مطابق، سردجنگ کے بعد یورپ میں نیٹو کی اب تک کی سب سے بڑی نقل و حرکت انجام پانے جارہی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button