مقبوضہ فلسطین

اسرائیلی جرائم کی عینی شاہد فلسطینی صحافیہ ابو عاقلہ کی توانا آواز ہمیشہ کےلیے خاموش

شیعیت نیوز: کل بُدھ کے روز فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر جنین میں اسرائیلی فوج کی جارحیت کی کوریج کرتے ہوئے قابض فوج نے سینیر فلسطینی صحافیہ شیریں ابو عاقلہ کو گولیاں مار کر بے رحمی کےساتھ شہید کردیا۔

شیرین ابو عاقلہ کو پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت اور باقاعدہ قاتلانہ حملے کا نشانہ بنا کرشہید کیا گیا ابو عاقلہ کو اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ جنین کیمپ کے مضافات میں اس پر دھاوا بولنے کے جرم کی کوریج کر رہی تھیں۔

مقامی صحافتی اور فیلڈ ذرائع نے بتایا کہ ابو عاقلہ اس جگہ نہیں تھیں جہاں فلسطینی مظاہرین اور قابض فوج کے درمیان جھڑپیں ہو رہی تھیں۔

الجزیرہ کے صحافی وليد العمري نے بتایا کہ ان کی ساتھی صحافیہ ابو عاقلہ کوقابض فوج نے براہ راست نشانہ بنا کر گولیاں ماریں حالانکہ وہ پریس جیکٹ پہنے ہوئے تھیں جس پرانگریزی میں ’پریس‘ کا لفظ جلی حروف میں دور سے نظر آ رہا تھا۔

سوچا سمجھا قتل

صحافی مجاھد السعدی نے مرکزاطلاعات سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میں اور دیگر صحافی ساتھی قابض فوج کے مقام سے تھوڑے فاصلے پر تھے۔ ہم سب نے پریس جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔ شیرین اور شذا حنایشہ بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ ہم نے اسرائیلی فوج کو بتایا کہ ہم صحافی ہیں۔ ہم اس وقت البلوک فیکٹری کی سمت تھے۔

انہوں نے بتایا کہ جب قابض فوج نے ہم پر براہ راست فائرنگ شروع کی تو اچانک ہماری شرین ابو عقالہ پر پڑی جو منہ کے بل زمین پر گری ہوئی تھیں۔ جب قابض فوج نے مزید جارحیت کی تو ہم نے خود کو دیوار کی اوٹ میں آنے کی کوشش کی۔ ہم اس وقت شیرین ابو عاقلہ کو طبی امداد فراہم نہیں کرسکے۔

یہ بھی پڑھیں : ابو عاقلہ کا قتل گھناؤنا جرم، معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا جائے، عرب لیگ

مجاھد السعدی نے بتایا کہ ہمیں اندازہ ہوگیا کہ قابض فوج نے شیریں ابو عاقلہ کو گولی مار دی ہے۔ یہ گولی ان کے کان کے نچلے حصے سے ان کے سرمیں داخل ہوگئی تھی۔ اس وقت ابو عاقلہ نے جیکٹ پہن رکھی تھی۔ قابض فوج ہمیں نشانہ بازوں کے ذریعے قتل کرنے کے درپے تھے مگرہم نے ہمت کرکے شیرین ابو عاقلہ کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب رہے۔ اس وقت وہ شدید زخمی تھیں۔

انسانی حقوق گروپ یورو مڈل ایسٹ کی طرف سے جاری ایک بیان میں سینیر صحافیہ شیرین ابو عاقلہ کی شہادت کی شدید مذمت کرتے ہوئے فلسطینی صحافتی برادری کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔

یورو مڈل ایسٹ کے مطابق صحافیہ ابو عاقلہ کی شہادت سے انسانی حقوق اور صحافتی برادری کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ انہیں جان بوجھ کر اور یہ جان کر کہ وہ صحافی ہیں اسرائیلی فوج نے گولیاں ماریں۔

مقامی ذرائع نے بتایا کہ مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھےچھ بجے صحافیوں کا ایک گروپ جنین کیمپ میں اسرائیلی فوج کی چھاپہ مار کارروائی کی کوریج کے لیے پہنچا۔ اس وقت ہرطرف اسرائیلی فوج پھیلی ہوئی تھی۔

اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائی میں شیرین ابو عاقلہ شہید اور ان کے ساتھی علی سمودی زخمی ہوئے۔

شہیدہ کا صحافتی کیریئر

صحافیہ ابو عاقلہ نے مسلسل دو عشروں تک فلسطین میں مختلف صحاتی اداروں کےساتھ فلسطین کی براہ راست کوریج کی۔ وہ ایک جانی پہچانی آواز اور شناسا چہرہ تھا۔ ابو عاقلہ کا شمار فلسطین کے ان صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دو عشروں سے زاید عرصے تک قابض اسرائیلی ریاست کے مکروہ چہرے کو قلم اور کیمرے کے ذریعےدنیا کے سامنے پیش کیا۔

ابوعاقلہ کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے فلسطین میں پریس اور صحافی غیر محفوظ ہیں۔ پریس جیکٹ پہننے کے باوجود فلسطینی صحافیوں کی جانیں خطرے میں رہتی ہیں۔ جیسا کہ شیرین ابو عاقلہ کی شہادت کا واقعہ ہے۔

ابو عاقلہ سنہ 1971ء کو مقبوضہ بیت المقدس میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک فلسطینی مسیحی خاندان سے ہے۔ ان کا خاندان غرب اردن کےجنوبی شہر بیت لحم سے القدس منتقل ہوا شیریں بیت المقدس میں پیدا ہوئیں۔

شیرین نے انٹرمیڈیٹ تک القدس کے بیت حنینا کی راھبات اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے اردن میں سائنس وٹیکنالونی یونیورسٹی سے کنسٹرکشن انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اخبارات سے وابستہ ہوگئیں۔ اس کے بعد اردن کی یرموک یونیورسٹی سے گریجوایشن کی۔

انہوں نے کچھ عرصہ فلسطینی پناہ گزینوں کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ’اونروا‘ کے ساتھ کام کیا۔ پھر ریڈیو فلسطین کی آواز، عمان ٹی وی چینل، المفتاح فاؤنڈیشن، مانٹ کارلو ریڈیو کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ وہ سنہ 1997ء میں الجزیرہ ٹی وی چینل سے وابستہ ہوگئیں اور بدھ گیارہ مئی 2022ء تک اسی پلیٹ فارم سے فلسطین کی توانا آواز بن کردنیا تک فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کا پردہ چاک کیا۔

تجربہ کار آئیکن

شیرین ابو عاقلہ القدس اور فلسطینی قوم میں محض ایک صحافیہ ہی نہیں تھیں بلکہ وہ فلسطینی قوم کی ترجمان تھیں جنہوں نے چھوٹوں اور بڑوں ہرایک کی ترجمانی کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے میدان سے فلسطینیوں کے حقوق کا مقدمہ لڑا۔

گذشتہ دو عشروں سے القدس اور غرب اردن میں وقوع پذیر ہونے والا شاید ہی کوئی واقعہ ہو جس کی کوریج میں ابو عاقلہ شامل نہ ہوئی ہوں۔ یہاں تک کہ غزہ کی ناکہ بندی کے دوران بھی ان کی آواز کو پوری دنیا میں سنا گیا۔ وہ جہاں بھی ہوتیں فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی ریاست کے جرائم کا پردہ چاک کرتیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button