یمن کی جنگ میں بڑی تبدیلی، بحر احمر کے جنوب میں انصار اللہ کا دبدبہ

شیعیت نیوز: لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم میں معروف عرب صحافی عبد الباری عطوان کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس میں یمن کی جنگ کی تازہ صورت حال کا دلچسپ جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔
انصار اللہ یمن کی اسپیشل فورس نے متحدہ عرب امارات کے پرچم کے ساتھ چلنے والے ایک بحری جہاز پر قبضہ کر لیا اور اسے الحدیدہ بندرگاہ لے آئی ۔ یہ ایسا واقعہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سن دو ہزار بائیس ہنگامہ خیز ہونے والا ہے ۔
سعودی اتحاد کے ترجمان، جنرل ترکی المالکی نے کہا ہے کہ یہ بحری جہاز ، سوقطرہ جزیرے سے آ رہا تھا اور اس پر طبی ساز و سامان تھا جو جازان میں ایک اسپتال کے لئے بھیجا گيا تھا لیکن ان کے یمنی ہم منصب جنرل یحیی سریع نے اس دعوے کی تردید کی ہے اور الحدیدہ بندرگاہ پر اس بحری جہاز کی تصویریں اور ویڈیو جاری کی ہے جن میں ، بحری جہاز پر ٹینک ، بکتر بند گاڑیاں اور ہتھیار دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اب اگر اس میں سچائی ہوئی ، جو کہ سچائی ہی نظر آ رہی ہے تو یہ سعودی اتحاد کے لئے بڑے مسائل کا باعث بنے گی کیونکہ اقوام متحدہ نے یمن میں جنگ کے تمام فریقوں کے لئے اسلحے کی ترسیل پر پابندی عائد کر رکھی ہے ۔
انصار اللہ کے ترجمان یحیی سریع کی اگر یہ بات صحیح ثابت ہوتی ہے کہ متحدہ عرب امارات کا یہ بحری جہاز فوجی ساز و سامان کے ساتھ تھا اور اس پر جو ہتھیار تھے وہ در اصل ابو ظہبی سے یمن کے مغربی ساحل پر موجود متحدہ عرب امارات کی حامی تنظیموں کے لئے بھیجے جا رہے تھے تو پھر صنعاء اور ابو ظہبی کے درمیان غیر تحریری خفیہ معاہدے کے خاتمے کا آغاز ہوگا جس کی وجہ سے گزشتہ سات برسوں کے دوران، متحدہ عرب امارات میزائل حملوں سے محفوظ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : متحدہ عرب امارات کا یمن میں ایک اور نیا فوجی ہوائی اڈہ تعمیر کرنے کا منصوبہ
آج اگر یمن کی انصار اللہ تنظیم، بحر احمر میں چلنے والے جہازوں پر قبضہ کر سکتی ہے تو یہ یقینا سات برسوں سے جاری یمن کی جنگ میں آنے والی بہت بڑی تبدیلی ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انصاراللہ کی بحری فورس اپنی اسپیڈ بوٹس کے ذریعے سمندر پر اور خاص طور پر باب المندب پر نظر رکھنے کی صلاحیت اور قابلیت رکھتی ہے اور یہ چیز یقینی طور پر اسرائیل کے لئے سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہو سکتی ہے کیونکہ بحر احمر کے جنوب میں کشیدگی کا اس سے براہ راست تعلق ہے کیونکہ اسرائیل کی 80 فیصد برآمدات اسی راستے سے ہوتی ہیں۔ اسرائیل اسی راستے سے مشرقی ایشیا اور افریقی ملکوں کے لئے اپنی مصنوعات برآمد کرتا ہےاور اب جب انصار اللہ کو یہ طاقت حاصل ہو گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کے تجارتی بحری جہاز ہی نہیں بلکہ فوجی جہاز بھی ، انصاراللہ کے رحم و کرم پر ہیں ۔
آج متحدہ عرب امارات کے بحری جہاز پر قبضہ کیا گیا ہے ، کل اسرائیلی جہاز کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں پر یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ تقریبا چار مہینے قبل ، بحیرہ عمان میں جو ایک اسرائیلی جہاز پر ڈرون طیاروں سے حملہ ہوا تھا وہ در اصل ، حوثیوں کی طرف سے تھا نہ کہ ایران کی طرف سے جیسا کہ برطانیہ کی حکومت نے اعلان کیا ہے ۔
نیا سال چونکانے والے واقعات سے مملو ہوگا چاہے وہ جنگ یمن کا محاذ ہو یا پھر فلسطین اور عراق و لبنان کا … ویسے بھی ، بارش ، ایک قطرے سے شروع ہوتی ہے۔