اہم ترین خبریںپاکستان

پولیس کی طرف سے شیعہ عسکریت پسند سیل کا قیام قابل مذمت ہے، علامہ سبطین سبزواری

شیعیت نیوز: شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر علامہ سید سبطین حیدر سبزواری نے کہا ہے کہ اسلام پُرامن مذہب ہے، دین مبین کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی واضح ہے کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب اور مسلک نہیں ہوتا، اہلبیت کے پیروکار پاکستان سے محبت کرنیوالے اور اس کی سالمیت پر جان قربان کرنے والے ہیں، کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔

علامہ سبطین سبزواری نے کہا کہ ایک عرب ملک کے سفارت کار کے قتل کی تحقیقات کیلئے قائم تحقیقاتی ٹیم کے نوٹیفیکیشن میں پولیس کی طرف سے شیعہ عسکریت پسند سیل کا قیام قابل مذمت اور متعصبانہ، جانبدارانہ اور امتیازی سلوک ہے۔

ہمارا پولیس سے سوال ہے کہ یہ تعصب صرف شیعہ کیلئے ہے یا دیوبندی، اہلحدیث اور سنی کے نام سے بھی عسکریت پسند سیل قائم کر رکھے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو انہیں بھی منظر عام پر لایا جائے اور حقائق قوم کو بتائے جائیں، وزارت داخلہ وضاحت کرے کہ یہ امتیازی سلوک صرف شیعہ ہی سے کیوں۔؟

یہ بھی پڑھیں : جامعہ کراچی میں آئی ایس او اور فلسطین فاؤنڈیشن کی مشترکہ یکجہتی فلسطین واک

لاہور میں کارکنوں سے گفتگو میں علامہ سبطین سبزواری نے استفسار کیا کہ کیا ادارے نہیں جانتے کہ جی ایچ کیو، ایف آئی اے بلڈنگ، سری لنکن ٹیم، سنی تحریک کے نشتر پارک جلسہ، داتا دربار، دربار عبداللہ شاہ غازی، مساجد، امام بارگاہوں، گرجا گھروں پر حملے کرنیوالوں کی مسلکی وابستگی کیا تھی؟ مفتی سرفراز نعیمی شہید کے قاتل، عید میلادالنبی، محرم الحرام اور صفرالمظفر کے جلوسوں پر حملہ کرنیوالے کس مسلک سے تعلق رکھتے تھے؟ عوام کو بتایا جائے کہ ان دہشت گردوں کے مسلک کے نام پر بھی کوئی سیل حکومت نے قائم کیا تھا یا اب بھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ شیعہ کے ساتھ ایک عرصے سے بدسلوکی جاری ہے۔

علامہ سبطین سبزواری نے کہا کہ ریاستی اداروں کی طرف سے اہل تشیع کیساتھ کیا جانیوالا امتیازی رویہ ناقابل برداشت ہے، ہمیں دیوار کیساتھ لگایا جا رہا ہے، کیا عوام اور ادارے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس بھول گئے کہ جامعہ تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی پر حملہ کرنیوالے، اسے جلانے والے کون تھے؟ قوم کو بتایا جائے کہ ان کے مسلک کے نام پر کوئی سیل قائم کیا گیا؟

علامہ سبطین سبزواری نے صدر پاکستان، وزیراعظم اور آرمی چیف سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا کہ ریاستی اداروں کی طرف سے شیعہ مکتبہ فکر کیساتھ امتیازی سلوک کی قبیح روش کو روکا جائے، اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اہل تشیع پرامن ہیں۔ جو 30 سال تک تکفیری گروہ کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ ان حالات کو دوبارہ پیدا نہ کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button