اہم ترین خبریںدنیا

ایران کے خلاف عرب ممالک پر مبنی اسرائیلی اتحاد کا شیرازہ بکھر چکا ہے، اخبار اسرائیل ہیوم

شیعیت نیوز: صیہونی حکومت کے معروف اخبار اسرائیل ہیوم نے اپنی تازہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایران کے خلاف عرب ممالک پر مشتمل اسرائیلی اتحاد کا شیرازہ اب بکھر چکا ہے کیونکہ جوبائیڈن کی جانب سے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک کے باعث ریاض و ابوظہبی ایران کے ساتھ سازگار گفتگو پر مجبور ہو کر رہ گئے ہیں۔

عبری زبان کے صیہونی اخبار کا لکھنا ہے کہ خصوصا گذشتہ چند ماہ کے دوران جبکہ عملی طور پر جوبائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں پہنچنے کے بعد سے، ریاض و ابوظہبی کی جانب سے ایران کے ساتھ خارجہ و سفارتی تعلقات کی استواری کے بارے ایک نئی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔

صیہونی اخبار کا لکھنا ہے کہ شروع میں سعودی حکومتی اہلکاروں نے بعض ایرانی حکام کے ساتھ بغداد میں خفیہ ملاقاتیں کی تھیں جن میں سعودی سفیر بھی شریک ہوا تھا جس کے بعد متحدہ عرب امارات نے ایران کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا اور یوں سابق اماراتی وزیر خارجہ اور اعلی سطحی سفارتکار انورقرقاش کو اس گفتگو کو آگے بڑھانے پر مامور کر دیا گیا۔

صیہونی اخبار نے لکھا کہ انور قرقاش نے ابوظہبی کے دورے پر آئے ڈپٹی ایرانی وزیر خارجہ اور ایرانی جوہری پروگرام کے سربراہ علی باقری کے ساتھ ملاقات کے بعد یہ کہتے ہوئے کہ اس نشست کا مقصد دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی اور باہمی تناؤ کا خاتمہ ہے، اعلان کیا تھا کہ عنقریب ایک اعلی سطحی اماراتی وفد تہران کا دورہ کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں : عراق کو قابو کرنے کیلئے اسرائیلیوں کے ساتھ سازباز کا زمانہ گزر چکا، ابو علی العسکری

اخبار اسرائیل ہیوم نے لکھا کہ عرب ممالک نے صرف تہران کے ساتھ ہی تعلقات کی استواری پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ حال ہی میں ابوظہبی کے ولیعہد محمد بن زائد نے شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو کے بعد اپنے وزیر خارجہ عبداللہ بن زائد آل نہیان کو شامی صدر کے ساتھ ملاقات کے لئے دمشق بھی روانہ کیا ہے جبکہ میڈیا نے اس دورے کی براہ راست کوریج دی تھی۔

عبری اخبار اسرائیل ہیوم نے لکھا کہ یہ تمام اقدامات واشنگٹن کی جانب سے علی الاعلان احتجاج کے باوجود اٹھائے جا رہے ہیں جبکہ امریکہ نے یہ دھمکی بھی دے رکھی ہے کہ ممکن ہے کہ ’’قیصر ایکٹ‘‘ کے تحت شام کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے جرم میں متحدہ عرب امارات پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی جائیں۔

صیہونی اخبار نے لکھا کہ اس حوالے سے متحدہ عرب امارات میں نہ صرف یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ دمشق کے نزدیک آنے سے ابوظہبی کا مقصد اسے تہران سے دور کرنا ہے بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امارات خطے کے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کی استواری کو پسند کرتا ہے جیسا کہ ’’صفر تناؤ‘‘ کی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے 10 سال کے بعد ولی عہد محمد بن زائد نے انقرہ کا دورہ کیا ہے جہاں ترک صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ ملاقات کے ساتھ ساتھ کئی ایک تجارتی، اقتصادی و سفارتی معاہدوں پر بھی دستخط کئے گئے ہیں۔

روزنامے اسرائیل ہیوم نے لکھا کہ سابق امریکی (انتہاء پسند) صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری پر مبنی ’’ابراہم معاہدوں‘‘ پر دستخط کے وقت ایران کے خلاف اوج پر پہنچ جانے والا خطے کا اتحاد ٹوٹ کر بکھر چکا ہے اور اب اس کا وجود کہیں نہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے ابوظہبی کے ایک اعلی سطحی حکومتی اہلکار نے عبری اخبار کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ گو کہ یہ بات صحیح ہے کہ حال ہی میں منعقد ہونے والی اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات کی مشترکہ فوجی مشقوں کا مقصد تہران کو ایک خاص پیغام بھیجنا تھا تاہم وہ اتحاد جو ٹرمپ کی ایماء پر ایران کے خلاف تل ابیب و عرب ممالک کے درمیان تشکیل پایا تھا اس وقت ’’تبخیر‘‘ ہو کر ہوا میں اڑ چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button