اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلعراقمقالہ جات

عراق کے قیام سے پہلے کی تاریخ

عراق کے قیام سے پہلے کی تاریخ

عراق کے قیام سے پہلے کی تاریخ کا یہ عنوان موجودہ جغرافیائی حدودپر مشتمل ملک عراق کی موجودہ شکل سے پہلے کی تاریخ کی ایک مختصر ٹائم لائن کے لیے منتخب کیا ہے۔ عراق سمیت کسی بھی ملک کی تاریخ ایسا موضوع نہیں کہ اسے ایک مختصر مقالے میں بیان کیا جاسکے۔

تحقیق و ترتیب ایم ایس مہدی
عراق پروفائل

البتہ اس تفصیل طلب مشکل موضوع کو اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی مثالیں موجود ہیں، جیسا کہ بی بی سی نے 3اکتوبر2018ع کو عراق پروفائل ٹائم لائن کے عنوان سے چند منتخب چیدہ چیدہ نکات کے ساتھ ایک ٹائم لائن کی صورت میں عراق کی پروفائل پیش کی ہے۔

 بی بی سی ٹائم لائن

البتہ بی بی سی نے اس ٹائم لائن کو سلطنت عثمانیہ کے دور کے عراق سے شروع کیا۔ بریٹانیکا انسائیکلوپیڈیا نے عراق کو مختلف عنوانات کے تحت بیان کیا ہے۔ البتہ عراق کے عنوان کے تحت جو ترتیب کے ساتھ تاریخ بیان کی اسکی ٹائم لائن ذیلی عنوان ہسٹری آف عراق کے تحت سال 600ع سے شروع کی ہے۔ اور اس سے قبل کے لیے ہسٹری آف میسوپوٹیمیا سے رجوع کرنے کی تاکید کی ہے۔

بریٹانیکا انسائیکلو پیڈیا

بریٹانیکا انسائیکلو پیڈیا نے میسوپوٹیمیا، بیبیلونیا(یعنی بابل) اور سمیر سے متعلق آگاہی دی ہے۔ سمیر نامی علاقہ کا جغرافیہ سے متعلق بریٹانیکا نے آگاہ کیا کہ یہ بغداد کے آس پاس سے خلیج فارس تک کا علاقہ تھا۔ تاریخی منابع اسی کو زرخیز ہلال (فرٹائل کریسینٹ) بھی کہتے ہیں۔ بڑیٹانیکا کے مطابق میسوپوٹیمیا کا ایک سرا زاگروس پہاڑی سلسلے تک تھا۔ جبکہ ایران میں آبنائے ہرمز تک پھیلا ہوا ہے۔

ایرانی سلطنت کا حصہ

در حقیقت یہ علاقہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے پانچ سو انتالیس برس قبل ایرانی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا۔ ایران کی ہخامنشی سلطنت کے بانی سائرس کے دور میں ایسا ہوا تھا۔ سائرس کو مغربی ذرایع ابلاغ میں سائرس دی گریٹ اور ایران میں کوروش اعظم اور کوروش کبیر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ بی بی سی نے اپنی ٹائم لائن دارا کے دور سے شروع کی ہے جو بہت بعد کی تاریخ ہے۔

عراق نام ایران ہی کا عطا کردہ

محققین اور مورخین یہ حقیقت اچھی طر ح جانتے ہیں کہ لفظ عراق خود فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس سرزمین کو عراق نام ایران ہی کا عطا کردہ ہے کیونکہ یہ ایران کی مرکزی حکومت کا حصہ تھا۔ اسی حقیقت کو امریکا کی ایک اہم شخصیت ولیم پولک نے بھی بیان کیا ہے۔

عراق کے قیام سے پہلے کی تاریخ

ولیم پولک نے ہارورڈ سے پی ایچ ڈی کیا اور عربی اور ترکی زبان کی تعلیم اوکسفرڈ سے حاصل کی۔ عراق اور دیگر علاقوں سے متعلق بھی انہوں نے مطالعہ کیا۔ بعد ازاں ہارورڈ میں مڈل ایسٹ کی تاریخ، سیاست اور عربی پڑھانے لگے۔ سال 1961ع میں انہیں امریکی حکومت نے محکمہ خارجہ کی پالیسی پلاننگ کاؤنسل کارکن مقرر کیا جہاں وہ 1965ع تک ذمے داری نبھاتے رہے۔ اسکے بعد یونیورسٹی آف شکاگو میں مرکز مطالعات مشرق وسطیٰ کے بانی ڈائریکٹر اور پروفیسر آف ہسٹری بنے۔

عراق کے قیام سے پہلے کی تاریخ

گریٹر اسرائیل یعنی ارض اسرائیل ھا شلیما کا نظریہ
انڈراسٹینڈنگ عراق

سال 2005ع میں انکی ایک کتاب بعنوان انڈراسٹینڈنگ عراق شایع ہوئی۔ اسی میں انہوں نے یہ تاریخی حقیقت بیان کی بظاہر عراق عربی لفظ معلو م ہوتا حالانکہ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ انہوں نے یہ حقیقت بھی بیان کی کہ ایرانیوں نے عراق کے مستقبل پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے اور بعد کے حکمرانوں نے بھی ایرانیوں کے ہی بعض اصولوں پر عمل کیا۔

حضرت عمرکی حکومت کے دور میں

جب مسلمانوں نے عراق کو فتح کیا تب یہ ایران کا ہی حصہ تھا۔ یہاں ایرانی ہی آباد تھے۔ عرب یہاں بعد میں وارد ہوئے۔ حضرت عمرجب حکمران تھے، تب یہ مدینہ میں قائم مرکزی حکومت کا حصہ بنا لیکن اس دور میں اسکی حیثیت بنیادی طور پر مسلمانوں کی فوجی چھاؤنی کی سی تھی۔

امیرالمومنین مولاعلی کی حکومت کے دور میں

امیر المومنین مولاعلی ؑ کو جب مسلمانوں نے حکمران منتخب کیا تو انہوں نے شام کے گورنر معاویہ بن ابوسفیان کو معزول کردیا جس نے مسلمانوں کی خلافت سے بغاوت کی۔ اسی وجہ سے امیر المومنین مولا علی ؑ نے باغی لشکر سے مقابلے کے لیے عراقی شہر کوفہ میں رہائش اختیار کی یعنی عراق (کوفہ) مسلمانوں کی مرکزی حکومت کا دارالخلافہ بن گیا۔

دینی و مذہبی لحاظ سے

دینی و مذہبی لحاظ سے بات کی جائے تو عرب بت پرست مشرک ہوا کرتے تھے، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دور میں عربوں نے بتدریج اسلام قبول کرنا شروع کردیا تھا۔ بعد ازاں یہی معاملہ ایرانیوں کے ساتھ ہوا کہ وہ پہلے آتش پرست تھے لیکن بعد میں ان کی بڑی تعداد نے بھی اسلام قبول کرلیا۔

حضرت سلمان فارسیؓ بزرگ صحابی رسول ﷺ

اس ضمن میں یہ بھی یاد رہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ بزرگ صحابی رسول ﷺ بھی ایرانی ہی تھے۔ بعد ازاں وہ عراق کے شہر مدائن کے گورنر بھی رہے۔

خلافت راشدہ کا سقوط معاویہ بن ابو سفیان کی قیادت میں

بنو امیہ کے مذکورہ معزول گورنر نے مسلمانوں کی اس حکومت سے جنگیں لڑیں جسے سنی خلافت راشدہ کہتے ہیں یعنی اس خلافت راشدہ کا سقوط معاویہ بن ابو سفیان ہی کی قیادت میں باغیوں نے کردیا تھا۔

بنو امیہ کی خاندانی موروثی حکومت

معاویہ بن ابوسفیان بنوامیہ کی موروثی اور خاندانی حکومت کا بانی بنا جسے عرف عام میں ملوکیت کہتے ہیں۔ بنو امیہ کی خاندانی موروثی حکومت آل ابوسفیان کے بعد آل مروان میں منتقل ہوئی اور عراق پر انکے مقرر کردہ عامل مقامی طور پر حکمرانی کرتے رہے۔

عباسی خاندان کی موروثی سلطنت

رسول اکرم ص کے چچا عباس بن عبدالمطلب کے بیٹے عبداللہ بن عباس کے پڑپوتے ابوالعباس السفاح کے دور سے عباسی خاندان کی موروثی سلطنت کا آغاز ہوا۔ عراق انہی کی مرکزی حکومت کا حصہ قرار پایا۔ اس کے بعد اسکا بھائی عبداللہ ابومنصورجعفر عباسی، اسکے بعد ابوجعفر منصور کا بیٹا محمد المعروف مہدی حکمران بنا۔ محمد المعروف مہدی کا بیٹا ہارون رشید حکمران بنا تب سے بغداد عباسی سلطنت کا باقاعدہ دارالحکومت قرار پایا۔

عراق کے قیام سے پہلے کی تاریخ

ایران کے دیلمی بویہ خاندان کی حکومت

سال 750عیسوی میں بنوامیہ کی سلطنت کا خاتمہ کرکے بنو عباس کی سلطنت قائم ہوئی۔ یہاں یہ یاد رہنا چاہیے کہ بنو عباس کی حکمرانی کے دور ہی میں بغداد انکے ہاتھ سے جاتا رہا تھا۔ گوکہ سال 1258ع میں منگولوں نے بنو عباس کی سلطنت کا خاتمہ کیا تھا یعنی پانچ صدیوں تک عباسی سلطنت رہی لیکن ایران کے دیلمی بویہ خاندان کی حکومت (از سال 932تا1062ع) نے بغداد کو اپنی قلمرو میں شامل کرلیا تھا۔

سلجوق ترک قبائلی حکمران الپ ارسلان

بعد ازاں سلجوق ترک قبائلی حکمران الپ ارسلان (ولادت سال -1030 وفات 1072ع) نے بھی عرا ق پر قبضہ کیا البتہ اس نے عراق کے عباسی سلاطین کے مفادات سے تصادم سے بچنے کے لیے وہاں کے معاملات میں مداخلت سے گریز کیا۔

منگولوں ایل خانی حکومت کا دور

یہ بھی یاد رہے کہ سلطنت عثمانیہ کا بانی عثمان غازی 1258ع میں پیدا ہوا۔ اسکی وفات سال 1324ع یا 1326ع میں ہوئی۔ یعنی عراق پر سلجوق سلاطین کا بھی کنٹرول رہا جو عباسی سلطنت نے دوبارہ حاصل کیا۔ منگولوں کا ایک دور ایل خانی حکومت کا بھی رہا جو سال 1258ع تا سال 1335ع تک جاری رہا۔ اس دور میں عراق ایل خانی مرکزی حکومت کا ایک صوبہ بن گیا تھا۔

عراق یا ماضی کا میسوپوٹیمیا، بابل یا سمیر یہ

یعنی موجودہ عراق یا ماضی کا میسوپوٹیمیا، بابل یا سمیر یہ سب علاقے مسلمانوں کی تاریخ کے مختلف ادوار میں بھی مختلف مرکزی حکومتوں کا حصہ رہے اور مختلف ٹکڑیوں میں تقسیم بھی رہے۔ ایرانی ترک خاندانوں نے بھی عراق پر حکومت کی ہے۔

عراق کے قیام سے پہلے کی تاریخ
 سلطنت عثمانیہ کا سقوط برطانیہ کی قیادت میں زایونسٹ یورپی بلاک نے کیا

قصہ مختصر یہ کہ عراق کی موجودہ تاریخ اس جغرافیائی حدود میں سقوط سلطنت عثمانیہ کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔ اور ترک سلطنت عثمانیہ کاسقوط پہلی جنگ عظیم کے اختتام پرہوا تھا جبکہ عراق پر ترک سلطنت عثمانیہ نے جب کنٹرول حاصل کیاتب عراق ایرانی صفوی بادشاہ کے کنٹرول میں تھا۔ اور عراق پر سنی ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کا سقوط برطانیہ کی قیادت میں اسی زایونسٹ یورپی بلاک نے کیا جس کا آج قائدامریکا ہے اور نیٹو فوجی اتحاد میں رجب طیب اردگان کا ترکی آج بھی اس زایونسٹ مغربی بلاک کا اٹوٹ انگ ہے!۔

Allama Kalbe Jawad announces rally to protest against Waseem Rizvi

متعلقہ مضامین

Back to top button