مقبوضہ فلسطین

شب معراج پر 50 ہزار فلسطینیوں کی مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیےحاضری

شیعیت نیوز: اسرائیلی ریاست کی طرف سے کڑی پابندیوں اور کورونا وبا کی وجہ سے عائد کردہ قدغنوں کے باوجود مسجد اقصیٰ شب معراج کے موقعے پر فلسطینی مسلمانوں سے بھر گئی۔

بیت المقدس کے مقامی ذرائع کے مطابق شب معراج کے موقعے پر مسجد اقصیٰ کی رونقیں دوبالا ہوگئیں۔ اس موقعے پر پچاس ہزار سے زائد فلسطینی مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ میں حاضری دی۔

فلسطینی شہری بیت المقدس کےتمام مقامات سےقبلہ اوّل میں پہنچے۔ اس کے علاوہ مقبوضہ بیت المقدس اور سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں سے بھی فلسطینیوں کی بڑی تعداد نےمسجد اقصیٰ میں حاضری دی۔

اس موقعے پر مسجد اقصیٰ میں آنے والے نمازیوں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔اور بچوں میں تحائف تقسیم کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں : عربوں اورصیہونیوں کا یارانہ عروج پر، نئے معاہدوں کا اعلان سامنے آگیا

قبل ازیں مسجد اقصیٰ کے امام وخطیب الشیخ عکرمہ صبری کی ایک اپیل سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے بیت المقدس کے مسلمانوں سے بالخصوص اور پورے فلسطینی مسلمانوں سے بالعموم اپیل کی تھی کہ وہ شب معراج کے موقعے پر مسجد اقصیٰ میں حاضری کو یقینی بنا کر قبلہ اوّل کے ساتھ اپنے ایمانی اور دینی رشتے کا اظہار کریں۔

شب معراج کے موقعے پر فلسطینیوں کو قبلہ اوّل سے روکنے کے لیے اسرائیلی فوج نے پورےشہر کو چھاؤنی میں تبدیل کردیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود فلسطینیوں کی بڑی تعداد قبلہ اوّل میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔

دوسری جانب عالمی فوج داری پولیس انٹرپول نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی نژاد اردنی خاتون احلام تمیمی کی گرفتاری کے لیے اس کا تعاقب نہیں کرے گی۔ دوسری طرف احلام تمیمی اور فلسطینیوں کے حامیوں‌ نے انٹرپول کے اس اعلان کو فتح قرار دیا ہے۔

اردن میں امور اسیران کے ماہر علا برقان نے ایک بیان میں کہا کہ احلام تمیمی اب انٹرپول کے ریکاڈ میں اشتہاری نہیں ‌رہی ہیں۔

خیال رہے کہ 41 سالہ احلام تمیمی 10 سال تک اسرائیلی جیل میں قید رہیں۔ انہیں 2011ء کو حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی ایک ڈیل کے تحت رہا کیا گیا تھا اور رہائی کے بعد انہیں اردن منتقل کردیا گیا تھا۔ احلام کو حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ساتھ مل کر ایک فدائی حملے میں یہودی آباد کاروں کو ہلاک کرنے پر 16 بار عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

رہائی کے بعد امریکہ اور اسرائیل نے دوبارہ اس کی گرفتاری کی کوششیں شروع کی تھیں اور انٹرپول کی مدد سے اس کی گرفتاری کے لیےاردن پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button