اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

طاغوتی نظام کی سرپرستی میں جواد نقوی صاحب کا سفر

طاغوتی نظام کی سرپرستی میں جواد نقوی صاحب کا سفر

جب سے پاکستان میں جواد نقوی صاحب نے باقاعدہ فعالیت کا آغاز کیا، انہوں نے ایک غیر منطقی موقف پر مبنی انتہاپسندانہ لفاظی کے ذریعے نوجوانوں کی ایک قابل ذکر تعداد کو اپنے گرد جمع کیا۔ خود محوری اور خود خواہی انکا نصب العین رہا۔ قرآن و اہلبیت ع کی تعلیمات کی روشنی میں فعال کردار اداکرنے والے علمائے کرام سے جوانوں کو متنفر کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔

شرک ربوبیت تشریعی کا الزام

سال 2013ع کے الیکشن سے قبل انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے والوں یعنی ووٹرز اور امیدوار دونوں ہی پر شرک ربوبیت تشریعی کا الزام لگا کر مشرک قرار دیا۔ اور انکا واضح ہدف خاص طور پر شیعہ اسلامی جماعتیں اور انکے حامی تھے۔ اس ضمن میں انکی لفاظی نے ایک نکتے پر فوکس کیا۔

پارٹی یا تنظیم کا وجود شرع مقدس اسلام کے خلاف

جواد نقوی صاحب نے پاکستان کے آئینی سیاسی نظام اور اس کے تحت چلنے والے اداروں کو طاغوت قرار دیا۔ انہوں نے شیعہ اسلامی جماعتوں سمیت ہر پارٹی و تنظیم کے وجود کو مسترد کردیا۔ انہوں نے پارٹی یا تنظیم کے وجود کو شرع مقدس اسلام کے خلاف عمل قرار دیا۔

  تاریخی معلومات اوسط درجے کے مولوی سے بھی کم سطح کی ہیں

جب وہ اسلامی تاریخ کے شعبے میں گھسے تو وہاں بھی انہوں نے اپنی خیالی و تصوراتی دنیا بنالی۔ انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ ام المومنین بی بی خدیجۃ الکبریٰ مکہ کے معاشرے میں کس بلند حیثیت کی مالکہ تھیں۔

Birth anniversary of Imam Mohammad Baqir being celebrated today

حتیٰ یہ کہ امام حسن علیہ السلام کے دور میں ان سے غداری کرنے والوں سے متعلق بھی انکی تاریخی معلومات اوسط درجے کے مولوی سے بھی کم سطح کی ہیں۔ حضرت مختار ثقفیؓ سے متعلق بھی موصوف نے شکوک و شبہات پھیلانے کی پوری کوشش کی۔

طاغوتی نظام کی سرپرستی میں جواد نقوی صاحب کا سفر

اور ایسا کیوں ہوا!؟ اس کا سبب بتدریج ظاہر ہونے لگا۔ کالعدم تکفیری دہشت گردٹولے سپاہ صحابہ کے دہشت گرد امجد معاویہ سے بغلگیر ہوتے وقت کی تصویر نے معاملہ ظاہر کردیا۔ ایک اور نوٹنکی مولوی زاہد الراشدی سے موصوف کی دوستی سامنے آئی۔ زاہد الراشدی نے بھی اپنی زندگی کے چند ماہ شیعہ ہونے کا ڈرامہ کیا تھا۔

Birth anniversary of Imam Mohammad Baqir being celebrated today

تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا !۔

دیگر شیعہ اسلامی علمائے کرام جب ماتمی انجمنوں اور ذاکرین سے میل ملاقاتیں کرتے تو جواد نقوی صاحب کو سبھی غالی نظر آیا کرتے تھے۔ لیکن قدرت خدا کی کہ انہی ماتمیوں اور ذاکرین کو اپنے ہاں بلاکر الگ سے اربعین کے بعد اربعین منانے کی روایت قائم کردی۔ یہ یو ٹرن تھا۔ البتہ یہ پہلا یو ٹرن نہیں تھا۔ بقول علامہ اقبال:

تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا !۔

طاغوتی نظام کے بڑے کھلاڑیوں سے دوستی

اس نظام کو جسے جواد نقوی صاحب طاغوتی کہتے نہیں تھکاکرتے تھے، اسی نظام کے بڑے کھلاڑیوں سے انکی دوستی کی خبریں ریکارڈ پر آنے لگیں۔ لندن پلٹ گورنر پنجاب چوہدی سرور ہی پر کیا موقوف، موصوف ایک ادارے کے افسر سے ملاقاتوں کو تذکرہ بھی فخر سے کرنے لگے۔

بچپن سے ہی بڑا آدمی بننے کا شوق

ان ملاقاتوں نے اہل عقل و شعور پر پورا منظر نامہ واضح کردیا کہ پرابلم نہ تو نظام سے ہے اور نہ ہی نظام سے منسلک اعلیٰ شخصیات سے۔ بلکہ پرابلم تو یہ تھی کہ انہیں بچپن سے ہی بڑا آدمی بننے کا شوق تھا۔

تکبراور گھمنڈ کی سزا

لیکن قدرت خدا کی کہ پھر جواد نقوی صاحب کبھی جماعت اسلامی کے پروگرامز میں نظر آنے لگے تو کبھی ڈاکٹر طاہر القادری کی منہاج یونیورسٹی لاہور کے چکر کاٹنے لگے۔ یہ اس تکبراور گھمنڈ کی سزا تھی جو قدرت کی طرف سے ایسوں کا مقدر بنتی ہے۔

Pakistan Army conducts tactical drills Jidar ul Hadeed in Thar Desert
سامری کے بچھڑوں کے پاس آپکا کیا کام

وہ کسی کا کچھ بگاڑ نہیں پائے۔ بلکہ ان کا دیگر جماعتوں کے دفاتر کے چکر کاٹنا اور دیگر جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کرنا، یہ قدرت کا خاموش پیغام تھا کہ اور بولو تنظیم اور جماعت کو سامری کا بچھڑا۔ اور بولو مولوی تنظیم اور جماعت کے کارکنوں اور حامیوں کو سامری کے سحر کا شکار! سامری کے بچھڑوں کے پاس آپکا کیا کام تھا!؟

طاغوتی نظام کے تحت مجمع المدارس کی سربراہی

اور یہ نظام جسے آپ نے طاغوتی قرار دے رکھا تھا، اسی طاغوتی نظام کے ماتحت مجمع المدارس تعلیم الکتاب و الحکمۃکی سربراہی کے بعد اب جواد نقوی صاحب کا اپنا اسٹیٹس کیا ہوگا؟ طاغوتی نظام کی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے وزیر تعلیم کے تحت اب آپ بہت خوش ہیں۔ یعنی ہن آرام اے

!

خلاف قانون و خلاف اصول، مجمع المدارس بنانے کی اجازت

دینی مدارس کے امتحانات کے لیے جو وفاق ہیں انکی شرائط ہیں۔ اور جواد نقوی صاحب کے تحت چلنے والا نظام تو ان شرائط پر پورا نہیں اترتا۔ یہ تو نااہل ہے۔ اسکے ماتحت مدارس کی تعداد کم ہے۔ تو خلاف قانون و خلاف اصول، جود نقوی صاحب کو ایک الگ وفاق مجمع المدارس بنانے کی اجازت دینے والی حکومت کے پیش نظر ایسا کونسا مفاد ہے جو جواد نقوی صاحب پورا کرسکتے ہیں۔!؟ اس سوال کا جواب فریقین ہی دے سکتے ہیں۔

سعودی عرب نے مدارس کو اپنے مفادات میں استعمال کیا

اور اس مجمع المدارس کے پس پردہ مقاصد کو چھپانے کے لیے جواد نقوی صاحب نے ماضی کی طرح ایک اور مرتبہ جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔ دیگر وفاق المدارس کے خلاف الزامات لگانے والے جواد نقوی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ شرابی مولوی طاہر اشرفی کے آقا سعودی عرب نے مدارس کو اپنے مفادات میں استعمال کیا، اس وجہ سے مدارس بدنام ہوئے۔ اور یہ کام مارشل لاء ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے سیاہ دور حکومت میں ہوا۔

جواد نقوی صاحب منزل مقصود پر

!

وہ کل کے سعودی ڈکٹیشن پر عمل کرنے والے مدارس تھے اور آج جواد نقوی صاحب انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں!۔ دینی سیاست کی مخالفت کے ساتھ فعالیت کا آغاز کرنے والے واد نقوی صاحب کا یہ سفر دین و سیاست کی جدائی کے مغربی سیکولر نظریے پر منتج ہورہا ہے۔

طاغوتی نظام کی سرپرستی میں جواد نقوی صاحب کا سفر

ویسے ریاست پاکستان کی سخاوت کی داد دینی پڑتی ہے، یہ اسلامی تحریکوں اور تنظیموں سے اپنے مطلب کے بندے ڈھونڈ کر اسے قومی دھارے میں لانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ جواد نقوی صاحب جس راہ کے راہی تھے، اس نے انہیں منزل مقصود پر پہنچاہی دیا!۔

مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور راہ حل

متعلقہ مضامین

Back to top button