اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور راہ حل

مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور راہ حل

سانحہ پانچ اگست 2019ع کے بعد دوسری مرتبہ سالانہ یوم یکجہتی کشمیر آج پانچ فروری کو منایا جارہا ہے۔ اس مناسبت سے خاص طور پر نوجوان نسل کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر کا مسئلہ در حقیقت ہے کیا اور یہ اب تک حل کیوں نہیں ہوسکا۔

تاریخ کے مختلف ادوار میں

سب سے پہلے تویہ معلوم ہوناچاہیے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں کشمیر میں مسلمان حکمران رہے ہیں۔ یہی حال بھارت کا ہے۔ وہاں بھی طول تاریخ میں صدیوں مسلمان حکمران رہے ہیں۔ مغلیہ سلطنت جس کا رسمی اختتام 1857ع کی لڑائی میں ہوا، اس مغل خاندان نے سال 1526ع سے بھارت پر حکمرانی کی۔ صرف اس ایک خاندان نے سوا تین صدیوں سے بھی زائد عرصہ بھارت پر حکومت کی۔

کشمیر میں مسلمان حکمران

وادی کشمیر میں سلطان شمس الدین اول عرف شاہ میر سال 1339ع میں حکمران بنے۔ 1342ع میں سلطان علاء الدین عرف علیشاہ، 1354ع میں سلطان شہاب الدین، 1373ع میں سلطان قطب الدین1389ع اپنی رحلت تک حاکم رہے۔ انکی رحلت پر انکا کم سن بیٹا سکندر برائے نام حکمران بنااور درپردہ حکم انکی ماں کا چلتا رہا۔ سال 1413ع تک سلطان سکندر کی حکومت رہی۔ سال 1413ع میں سلطان علی شاہ عرف میراں خاں حاکم بنا۔ سلطانوں کا یہ سلسلہ سال 1555ع میں سلطان حبیب شاہ تک جاری رہا۔ یعنی دو صدیوں سے بھی زیادہ عرصہ سلطان کے لقب سے مسلمان حاکم رہا۔

مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور راہ حل

مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور راہ حل

سال 1555ع میں یوسف شاہ چک حاکم بنا اور چک سلسلے کا آخری کشمیری حکمران سال1586ع میں یعقوب شاہ چک تھا۔ یعنی اکتیس بتیس سال چک حکمرانی رہی۔

اسکے بعد اکبر بادشاہ کے دور میں کشمیر مغلیہ سلطنت کے تحت آگیا۔ یعنی 1586ع تا 1752ع۔

مسلسل پونے پانچ صدیوں سے زائد عرصہ حکومت

سال 1752ع تا1772ع کشمیر پر افغان بادشاہ احمد شاہ درانی نے اپنے مقرر کردہ مقامی حاکم کے ذریعے حکومت کی۔ سال 1819ع تک افغان حکمرانوں کا حکم کشمیر پر نافذ رہا۔

یعنی کشمیر پر مسلمانوں نے مسلسل پونے پانچ صدیوں سے زائد عرصہ حکومت کی ہے۔

سکھ راج ڈوگرہ راج

سال 1819ع میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور سے کشمیر پر سکھ راج مسلط ہوا۔ اسکے بعد سال 1846ع سے یہاں مہاراجہ گلاب سنگھ نے ڈوگرہ راج قائم کیا۔ سال 1947ع تک ڈوگرہ راج رہا۔ یعنی یہاں ایک صدی ڈوگرہ راج رہا۔

انگریز سامراج کے ساتھ ساز باز کرنے کے صلے میں گلاب سنگھ کو کشمیر ملا

یہ اعداد و شمار، یہ معلومات ان تاریخ ذرایع سے لی گئیں ہیں کہ جو سبھی کے لیے قابل قبول ہیں۔ اور مستند ترین تاریخی معلومات کی روشنی میں صرف آخری ڈوگرہ راج سے متعلق یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہے کہ گلاب سنگھ کو کشمیر انگریز سامراج کے ساتھ ساز باز کرنے کے صلے میں ملا تھا۔ گلاب سنگھ نے انگریز وں کی سکھوں کے ساتھ جنگ میں سکھوں کا ساتھ نہیں دیا تھا۔

وادی کشمیرایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے

سال 1846ع میں شکست خوردہ سکھ راج نے وادی کشمیر کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کیا تھا۔ گلاب سنگھ جموں کا حاکم تھا، گورنر جنرل سر ہنری ہارڈنج نے معاہدہ امرتسر کے ذریعے مشروط طور پر گلاب سنگھ کو وادی کشمیر دے دی جہاں انگریز فوج کی مدد سے وادی پر قبضہ کیا اور وہ بھی دوسال میں۔

برطانیہ سامراج کی ایک سازش

یعنی یہ ایک زبردستی کا قبضہ تھا۔ اور برطانیہ سامراج کی ایک سازش کے نتیجے میں مسلم اکثریتی وادی کشمیر پر ڈوگرہ راج مسلط کیا گیا۔ اور جاتے جاتے بھی برطانیہ سامراج نے بھارت اور پاکستان کے مابین اسے ایک غیر حل شدہ تنازعہ کے طور پر چھوڑا۔

کشمیر کو ایک خاص اور جدا حیثیت

بھارت نے اسی ڈوگرہ راج کے آخری حاکم سے بعض شرائط پر کشمیر کو ایک خاص اور جدا حیثیت کے عنوان سے بھارتی آئین میں جگہ دی۔ ان شرائط میں سے ایک یہ بھی تھی کہ کشمیر میں کوئی بھی غیر کشمیری شہری نہ جائیداد خرید سکتا ہے اور نہ ہی اسے یہاں کی شہری شناخت دی جاسکتی ہے۔

آزاد جموں و کشمیر

جب کشمیر کو بھارت کے قبضے سے آزاد کرانے کی لڑائی ہوئی تو وہ حصہ جو آزاد جموں و کشمیر کہلاتا ہے، یہ علاقہ آزاد کروالیا گیا تھا۔ اس طرح پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پیدا ہوئی۔

اقوام متحدہ کے فورم پر حق خود ارادیت

اس وقت بھارتی وزیر اعظم نہرو اس مسئلے کو خود اقوام متحدہ کے فورم پر لے گئے۔ وہاں کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دے کر یہاں کے عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا گیا۔

مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور راہ حل
مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور راہ حل

حق خود ارادیت کے لیے عوام کے رائے معلوم کرنے کے لیے ریفرنڈم (پلیبیسائٹ) منعقد کیا جائے، ایسا تجویز کیا گیا۔ تب سے اب تک بھارت کشمیریوں کے اس حق رائے دہی برائے حق خود ارادیت سے فرار کررہا ہے۔

کشمیریوں کی تحریک آزادی میں ایک نیا جوش اور ولولہ

سال 1989-90ع میں الیکشن دھاندلی کے بعد کشمیریوں کی تحریک آزادی میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا۔ تب سے انہوں نے مسلسل جدوجہد کا سلسلہ کسی نہ کسی انداز میں جاری رکھا ہے۔ حریت پسندوں کے بعض رہنماؤں نے مسلح جدوجہد کی راہ کو ترجیح دی۔ بعض اسے عوامی مہم اور سفارتی لابنگ کے ذریعے حل کروانے کے لیے فعال کردار اداکرتے رہے۔

کشمیر کی خاص اور جدا حیثیت ختم

اور پانچ اگست 2019ع کو وزیر اعظم نریندرا مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے دور میں کشمیر کی خاص اور جدا حیثیت کو ختم کرکے اسے باقاعدہ بھارت کا حصہ بنانے کا حکم جاری کردیا گیا۔ تب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم میں شدت آگئی۔ وہاں ایک طویل عرصے مکمل بندش رہی۔ ہر قسم کی سرگرمیاں ممنوع کردیں۔ تاحال فور جی انٹرنیٹ کی سروس پر پابندی ہے۔ جعلی مقابلوں میں بے گناہ کشمیری جوانوں کو بھارتی افواج قتل کررہی ہیں۔

فائرنگ اور شیلنگ بھارت کا معمول

پاکستان کے ساتھ سیزفائر کی بھی بھارت مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور شیلنگ بھارت کا معمول بن چکا ہے۔ ایٹمی اسلحے سے لیس دنیا کے دواہم ملکوں کے مابین یہ کشیدگی کسی بڑے ناقابل تلافی تصادم یا حادثے کو جنم دے سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کی بڑی طاقتوں نے تنازعہ کشمیر کو حل کرانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں کی۔ انکا کردار بیانات تک محدود رہا۔ بلکہ انکا جھکاؤ واضح طور پر بھارت کی طرف رہا ہے۔

شیعہ اسلامی قیادت نےمظلوم کشمیریوں کی ہمیشہ حمایت کی

پاکستان میں شیعہ اسلامی قیادت نے بھی ملک کی دیگر سیاسی و مذہبی قیادت کی طرح مظلوم کشمیریوں کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ اس ضمن میں مجلس وحدت مسلمین نے ہفتہ یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا ہے۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے اس مسئلے کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ دیگر شیعہ اسلامی جماعتیں اور رہنما بھی مظلوم کشمیریوں کی حمایت کرتے آرہے ہیں۔

کشمیر کشمیریوں کا ہے

جمہوری اصولوں، قانون (انٹرنیشنل لاء) اور انسانی اخلاقیات کی روشنی میں کشمیر کشمیریوں کا ہے۔ اس پر بھارت کے دعویٰ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ وادی کشمیر میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہونے کی وجہ سے کہاجاسکتا ہے کہ بھارت کی پالیسی جمہوری اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور راہ حل

انٹرنیشنل لاء بھی اسے متنازعہ علاقہ کہتا ہے۔ اسلیے فوری طور پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے انکی رائے پوچھی جانی چاہیے اور اسکا حل یہی ہے کہ ریفرنڈم کروایا جائے۔

کشمیر کا مقدمہ پاکستان نے لڑا ہے

پاکستانی قوم اور ریاست دونوں ہی نے کشمیر کے حق میں پوری دنیا میں آواز حق بلند کی ہے۔ کشمیریوں سے زیادہ کشمیر کا مقدمہ پاکستان نے لڑا ہے۔ شیعہ مسلمان شہری بھی پاکستانی قوم کا اٹوٹ انگ ہیں۔ اور شیعہ اسلامی قیادت نے مولا امیرالمومنین حضرت علی ع کی وصیت کو معیار بنارکھا ہے کہ امیرالمومنین مولا علی ؑ نے تاکید کی کہ ظالموں کے ہمیشہ دشمن و مخالف رہنا اور مظلوموں کے ہمیشہ حامی اور مددگار رہنا۔ اس حکم کی روشنی میں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جارہا ہے۔

مسئلہ کشمیر کے منطقی حل سے دنیا کو آگاہ کریں

اس ضمن میں ہرپاکستانی شہری کو اپنے اپنے شعبوں میں ذمے داری انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں ریاستی اور حکومتی حکام کا کردار سرفہرست ہے۔ ساتھ ہی پارلیمنٹ کے اراکین، سیاسی قائدین اور کارکنان، علمائے کرام، دانشور اور صحافی سبھی کو اس مسئلے کو علمی و منطقی انداز میں پیش کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مسئلہ کشمیر کے منطقی حل سے بھی دنیا کو آگاہ کریں تاکہ بھارت پر دباؤ بڑھے۔

سبط کمال الدین برائے شیعیت نیوز اسپیشل

متعلقہ مضامین

Back to top button