اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

متحدہ عرب امارات کی پاکستان دشمنی

متحدہ عرب امارات کی پاکستان دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ گوکہ اس دشمنی میں امارات تنہا نہیں بلکہ بعض دیگر عرب شیوخ و شاہ حکومتیں بھی ہیں لیکن اس تحریر میں فوکس اماارت تک محدود رکھتے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ متحدہ عرب امارات کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ خاص طور پر یہ کہ امارات کے حکمران شیوخ کے لیے پاکستان کی حیثیت کیا ہے۔ وہ پاکستان کی سرزمین کو کن مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود امارات کی سرزمین کن مقاصد میں استعمال ہوتی ہے۔

متحدہ عرب امارات کی پاکستان دشمنی

یہ چند سوالات ہیں جن کے جوابات سے متحدہ عرب امارات کی پاکستان دشمنی کھل کر سامنے آجائے گی۔

تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زاید النھیان کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی اماراتی وفد پاکستان آرہا ہے۔ اور یہ وفد دو ہفتے پاکستان میں قیام کرے گا۔ خاص طور پر یہ اماراتی حکمران جنوبی پنجاب کے پانچ اضلاع میں قیام کریں گے۔ راجن پور، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، بہاول نگر اور رحیم یار خان۔

اماراتی حکمران شکار کے لیے آتے ہیں

یہ اماراتی حکمران شکار کے لیے آتے ہیں۔ ابوظھبی کے ولی عہد محمد بن زاید النھیان بھی اس نوعیت کے شکاری دوروں پر آتے رہے ہیں۔ گوکہ پاکستان میں تلور کا شکارممنوع ہے لیکن ان اماراتی حکمرانوں کے لیے پاکستان کے حکمران اپنے ملک کے قانون پر عمل کرنے اور کروانے کی بجائے خصوصی اجازت نامہ برائے شکار تلور جاری کرتے ہیں۔

پاکستان کی عزت و غیرت کا شکار

مشہور صحافی حامد میر نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کھل کر کہا تھا کہ پاکستان میں انکے میزبان محض تلور کے شکار کا بندوبست نہیں کرتے بلکہ جن مقاصد کے لیے تلور کھایا جاتا ہے اسکا بھی بندوبست کرتے ہیں۔ یعنی پاکستان کی عزت و غیرت کے شکار کا بھی بندوبست کرتے ہیں۔

غیرت مند قوم کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام

کسی بھی غیرت مند قوم کے لیے یہ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہوتا ہے کہ جب انکی سرزمین پر اس نوعیت کی حرام کاری کی جائے اور اسے فخر سمجھا جائے۔ پاکستان میں چند ایسے مقامات بھی ہیں جہاں ان شیوخ و شاہ نے محل نما عمارات بھی بناررکھی ہیں۔ وہاں سے بھی اسی نوعیت کی داستانیں منسوب ہیں۔

اماراتی حکمرانوں کے لیے پاکستان کی سرزمین کی حیثیت

یہ تو ہوا اس سوال کا جواب کہ اماراتی حکمرانوں کے لیے پاکستان کی سرزمین کی حیثیت کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی جان لیں کہ متحدہ عرب امارات کی سرزمین پاکستان دشمنی میں استعمال ہوتی ہے۔

علیحدگی پسند دہشت گرد

علیحدگی پسند دہشت گرد جو خاص طور پر صوبہ بلوچستان، جنوبی پنجاب اور کراچی میں دہشت گردانہ حملے کرتے ہیں۔ اور خاص طور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور چین پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک منصوبے اور چین پاکستان مشترکہ منصوبوں پر حملہ آور ہیں، ان کے سرکردہ افراد بھی امارات کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کی پاکستان دشمنی

کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی مرکزی عمارت پر جو دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ یا اس نوعیت کے دیگر حملے۔ ان سب کا سرا حربیار مری یا براہمداغ بگٹی سے ملتا ہے یہ لوگ محض بھارت، امریکا اور چند یورپی ممالک ہی نہیں بلکہ امارات کی سرزمین بھی استعمال کرتے ہیں۔

مذہبی انتہاپسندی اوردہشت گردی کے منظم نیٹ ورک کو فنڈنگ

بات محض لسانی علیحدگی پسنددہشت گردوں تک محدود نہیں بلکہ مذہبی انتہاپسندی اوردہشت گردی کے پنجاب میں قائم ایک منظم نیٹ ورک کو دس کروڑ ڈالر سالانہ فنڈنگ بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ دہشت گرد نیٹ ورک آٹھ سال کی عمر کے بچوں کو انکا منظم نیٹ ورک بھرتی کرتا ہے اور اس عمر سے انکی برین واشنگ کرکے انہیں جہاد کے نام پر متشدد انتہاپسنددہشت گردوں میں تبدیل کرتا رہا ہے۔

امارات کے حکمرانوں کی نظر میں گوادر دبئی پورٹ کا اصل حریف

مدارس کو دیگر ممالک سے مالیاتی مدد ملنا ایک بات ہے لیکن جہاد کے نام پر فساد فی الارض کے لیے مال فراہم کرنا بالکل ناقابل قبول اور قابل مذمت فعل ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ امارات کے حکمرانوں کی نظر میں گوادر پورٹ انکے دبئی پورٹ کا اصل حریف ہے۔ اس لیے سی پیک کے خلاف علیحدگی پسند دہشت گرد گروہوں کا امارات کی سرزمین استعمال کرنا کوئی ایسی بات نہیں کہ کسی سے ڈھکی چھپی رہی ہو۔

کاسٹ اینڈ بینیفٹ اینالیسس

جہاں تک بات ہے ترسیل زر کی تو متحدہ عرب امارات میں غیر ملکی ملازمین نے جو رقوم اپنے ممالک بھیجیں ان میں سرفہرست بھارت ہے، دوسرا فلپائن، تیسرا پاکستان، چوتھا بنگلہ دیش اور پانچواں امریکا ہے۔ پاکستان کے علاوہ کوئی ایسا ملک نہیں جو دیگر ناقابل تلافی نقصانات کی قیمت پر چند ارب ڈالر کا ترسیل زر قبول کرلے۔ کاسٹ اینڈ بینیفٹ اینالیسس کے ماہرین اچھی طرح جانتے ہیں کہ امارات سے تعلقات کی اصل قیمت (کاسٹ) کیا ہے اور اس میں مجموعی کاسٹ کو مد نظر رکھیں تو بینیفٹ کسی لحاظ سے بنتاہی نہیں بلکہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔

چالیس تا پچاس ہزار پاکستانی ملازمین ڈی پورٹ

دس جولائی کی خبر کے مطابق امارات حکومت نے چالیس تا پچاس ہزار پاکستانی ملازمین کو بے روزگار کرکے ڈی پورٹ کردیا تھا۔ اب دسمبر کے آغاز میں جائزہ لیں تو پاکستانیوں کے لیے امارات کی سرزمین تنگ کردی گئی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانیوں کو امارات حکومت نے جبری طور پر گم کردیا ہے۔ مزید ہزاروں کی تعداد میں پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کردیا ہے۔

متحدہ عرب امارات کی پاکستان دشمنی

اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد

قانونی طور پر امارات میں مقیم پاکستانیوں کے سرمائے پر امارات حکومت نے قبضہ کرلیا ہے۔ بغیر کسی معقول وجہ کے پاکستانی ملازمین کو بے روزگار کرکے ڈی پورٹ کردیا ہے۔ اوریہ تازہ ترین کارروائیاں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد انجام دیں ہیں۔

امارات کے وزیر انور قرقاش کی دھمکی

ایک طرف امارات کے حکمرانوں کی یہ پاکستان دشمن کارروائیاں ہیں۔ ایک طرف امارات کے وزیر انور قرقاش کی یہ دھمکی ہے کہ پاکستان کو یمن جنگ میں مبہم پالیسی کی بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی۔
اور اب پاکستانی قوم دیکھ رہی ہے کہ کس طرح امارات بھاری قیمت وصول کررہا ہے۔

موجودہ حکومت نےچپ سادھ رکھی ہے

مقام افسوس ہے کہ موجودہ حکومت نے اس حساس اور سنگین ایشو پر چپ سادھ رکھی ہے۔ امارات نے پاکستانیوں کے لیے ویزا پالیسی سخت کردی ہے۔ جس جس ملک کے لیے امارات نے یہ پالیسی سخت کی اس اس ملک نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ حتیٰ کہ عراق جیسے کمزور ملک کی پارلیمنٹ نے بھی جیسے کو تیسا جواب دینے کا اعلان کردیا۔

 قومی غیرت، آزادی و خود مختاری

لیکن ریاست پاکستان کے چند بڑے اور طاقتور لوگ شاید ذاتی تعلقات اور دوستیاں نبھانے کو قومی غیرت، آزادی و خود مختاری پر ترجیح دے رہے ہیں۔ ورنہ سانحہ پانچ اگست 2019ع کے بعد نریندرا مودی کو اعلیٰ ترین اماراتی اعزاز دینے اور کشمیر کے ایشو کو امت اسلامی کا ایشو نہ بنانے کی ڈکٹیشن دینے والے امارات کو اسکی اوقات یاد دلانا لازمی تھا۔

پاکستان کی غیر ت کا جنازہ

اگر اس وقت امارات سے متعلق خارجہ پالیسی تبدیل کرکے اسکو بھی مودی کی طرح کا ردعمل دکھایا جاتا تو شاید نہیں بلکہ یقینا امارات کی یہ ہمت نہ ہوتی کہ وہ مسلم دنیا کی واحد نیوکلیئر طاقت پاکستان کے وزیر اعظم کو دورہ ملائیشیاء منسوخ کرنے کا حکم دیتا۔ امارات سے تعلق کی قیمت نہ صرف پاکستان کے اندر پاکستان کی غیر ت کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے بلکہ پاکستان پر اماراتی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

امارات حکومت کوواضح پیغام دیا جائے

متاثرہ پاکستانی خاندان پاکستان حکومت سے مدد چاہتے ہیں۔ فوری طور پر امارات حکومت کو مجبور کیا جائے کہ جبری گم کردہ پاکستانیوں کو فوری طور رہا کرے۔ امارات حکومت کو پاکستان حکومت کی طرف سے واضح پیغام دیا جائے کہ پاکستانیوں کی سرمایہ کاری اور کاروبار کو امارات حکومت ہرگز ضبط نہ کرے،. ہرگز اپنی سرکاری تحویل میں نہ لے بلکہ پاکستانیوں کو انکا سرمایہ لوٹایا جائے۔

پاکستان کی آزادی و خود مختاری کا تقاضا

اس کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان پر لازم ہے کہ امارات کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرے۔ یہ اور دیگر شاہ و شیوخ اسرائیل کے دوست بن چکے ہیں۔ یہ امت اسلامی اور عربوں کے خائن کشمیر کے غاصب بھارت کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات دے چکے ہیں۔ انکے دیے ہوئے سودی قرضے کی ادائیگی کو پاکستانی ملازمین کے بقایا جات اور پاکستانی سرمایہ کاروں کے سرمائے کی پاکستان واپسی سے مشروط کردیا جائے۔ پاکستان کی آزادی و خود مختاری یہ تقاضا کرتی ہے کہ امارات کے صدر کے دورے کو احتجاج کے طور پر منسوخ کردیا جائے۔

عثمان سعید شیعیت نیوز اسپیشل
متحدہ عرب امارات کی پاکستان دشمنی
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے نقصانات برائے پاکستان
Israel has long history of assassinating scientific elites across world

متعلقہ مضامین

Back to top button