اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

فیصل وڑائچ کی بیان کردہ سرد جنگ سے متعلق حقائق

فیصل وڑائچ کی بیان کردہ سرد جنگ سے متعلق حقائق

فیصل وڑائچ کی بیان کردہ سرد جنگ سے متعلق حقائق پیش کرنا ریکارڈ کی درستگی کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے ایک پروگرام بعنوان صدام حسین نے ایران پر حملہ کیوں کیا میں چند افسانوی و تخیلاتی باتیں کہیں جو کہ انکا وہم و مفروضہ تو ہوسکتا ہے، حقیقت نہیں۔

صدام حسین نے ایران پر حملہ کیوں کیا

البتہ انہوں نے ایک ایسا سوال عنوان کے طور پر انتخاب کیا جس کاجواب مستند دستاویزی تاریخ میں محفوظ ہے۔ لیکن اس مستند اور دستاویزی تاریخ کے ہوتے ہوئے بھی بعض افراد جانے بوجھتے یا نادانستہ طور اس موضوع پر غلط بیانی کرتے رہے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ محترم فیصل وڑائچ صاحب بھی اپنے یو ٹیوب چینل پراس موضوع پر دور دور کی کوڑیاں لارہے ہیں۔ حقائق جاننے کے متمنی احباب کے اصرار پر ریکارڈ کی درستگی کے لیے یہ تحریر پیش خدمت ہے۔

وڑائچ صاحب اورانکے یوٹیوب ناظرین درستگی فرمائیں

خاص طور پر فیصل وڑائچ صاحب اورانکے یوٹیوب ناظرین درستگی فرمائیں۔ فیصل وڑائچ صاحب نے ایک ایسا نقشہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو حقیقت کی بجائے فکشن پر مبنی ہے۔ تاریخ ایسا شعبہ نہیں کہ اس میں فکشن کی آمیزش کی جائے، تاریخ شاعری کی طرح نہیں ہوا کرتی کہ مبالغہ آرائی اور تخیلات کا مرکب بناکر پیش کیا جائے۔ فیصل وڑائچ صاحب محض ایک افسانہ نگار یا فکشن داستان گو ثابت ہوئے جبکہ یہ شعبہ محققین اور مورخین کا ہے۔

صدام اور مشرق وسطیٰ سے متعلق حقائق اختصار کے ساتھ

چونکہ فیصل وڑائچ صاحب نے زیبائش داستان کے لیے بہت سے جڑے ہوئے موضوعات کو بھی اپنے پروگرام کی 17ویں قسط کا غلط انداز میں حصہ بنا ڈالا، اس لیے یہ تحریر بھی ایک سے زائد اقساط کی طالب ہے۔ لیکن فی الحال اس ایک تحریر میں صدام اور مشرق وسطیٰ سے متعلق حقائق اختصار کے ساتھ پیش خدمت ہیں۔

سرد جنگ سے متعلق ریکارڈ کی درستگی

صدام دور حکومت میں ایران پر حملے کا تعلق سرد جنگ سے جوڑنے والوں کو کم سے کم اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ سرد جنگ مغربی سرمایہ دارانہ بلاک اور سوویت اشتراکی بلاک کے مابین لڑی گئی۔ یعنی یہ سرد جنگ اسلامی ممالک کے مابین نہیں بلکہ چند ایک کو چھوڑ کر د و بلاک میں منقسم پوری د نیا ہی کے مابین ہوئی۔

کیپیٹل ازم اور کمیونزم

یہ حقیقت بین الاقوامی تعلقات اور سیاسی تاریخ کے ادنیٰ ترین طالب علم بھی جانتے ہیں کہ دومحوری دنیا کے کیپٹلسٹ مغربی بلاک کا سربراہ امریکا تھا اور سعودی عرب اسی بلاک کا اسلامی دنیامیں سب سے بڑا ایجنٹ تھا۔ البتہ پہلے اس غلامانہ کردار میں محمد رضاپہلوی شاہ ایران بھی آل سعود کا شراکت دار ہوا کرتا تھا۔

عراق اور سعودی عرب پہلی جنگ عظیم کے بعد نیشن اسٹیٹ بنے

گوکہ یہ سردجنگ دوسری جنگ عظیم کے بعدشروع ہوئی لیکن عراق اور سعودی عرب پہلی جنگ عظیم کے بعد نیشن اسٹیٹ بنے اور انکے قیام کا سبب برطانیہ، فرانس اور زار کے دور کے روس کے مابین خفیہ معاہدہ تھا جسے عرف عام میں سائیکس پیکو معاہدہ کہتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی سرد جنگ میں مغربی بلاک کا قائد امریکارہا۔

تیل پر قبضے کی سامراجی جنگ

مغربی سا مراج کی نظر میں مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک،خاص طور پر عراق، سعودی عرب اور ایران تیل سے مالامال ملک ہونے کی وجہ سے اہمیت کے حامل تھے۔ امریکا اور برطانیہ نے یہاں کے تیل کو آپس میں تقسیم کیا۔ امریکا نے سعودی عرب کے تیل پر کنٹرول حاصل کیا۔ برطانیہ نے عراق اور ایران کے تیل پر۔

اسرائیل کا تحفظ، سامراجی ہدف

. محض یہ ایک وجہ نہیں تھی بلکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے سرد جنگ کے دور میں سال1948ع سے امریکا و برطانیہ کی اولین ترجیح اسرائیل کا تحفظ تھا۔ بنیادی طور پر یہ دو اہداف تھے یعنی تیل پر کنٹرول اور اسرائیل کا تحفظ۔ اسی وجہ سے جمال عبدالناصر کی حکمرانی کے دور میں مصر پر برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مشترکہ جنگ مسلط کی۔

نہر سوئز بحران اور مصر پر سہ ملکی جنگ مسلط

اسی 1950ع کے عشرے میں ان دو اہداف کے لیے مذکورہ بالا نہر سوئز بحران اور مصر پر سہ ملکی جنگ مسلط کی گئی۔ اسی دور میں امریکا نے بعث پارٹی کو عراق میں متبادل قیادت کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ مصر کے نام ور صحافی اور دانشور محمد حسنین ہیکل نے قاہرہ دستاویز کے عنوان سے جمال عبدالناصر سے متعلق کتاب لکھی اس کو پڑھ کر سمجھا جاسکتا ہے کہ ان دنوں مصر میں امریکی حکام بہت زیادہ دلچسپی لیا کرتے تھے۔

مصر نام ور صحافی اور دانشور محمد حسنین ہیکل قاہرہ دستاویز

برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے ہنری لیوس کے توسط سے دھمکی دی تھی کہ اگر جمال عبدالناصر برطانیہ کو مشرق وسطیٰ کے تیل سے محروم کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر اسے خود بھی جانا ہوگا۔ چرچل کے بعد (انتھونی) اینتھنی ایڈن وزیر اعظم برطانیہ بنے تو انکا رویہ بھی یہی رہا۔

پروٹوکولز آف سیورا

سال1960ع میں اینتھنی ایڈن نے فل سرکل کے عنوان سے اپنی یادداشتیں کتابی شکل میں شایع کروائیں تو پتہ چلا کہ 1950ع کے عشرے میں برطانیہ کے وزیر خارجہ سیلوین لائیڈ، فرانسیسی وزیر خارجہ کرسچین پینا اور اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے پیرس کے مضافات میں سہ ملکی خفیہ معاہدہ کیا تھا۔ یہ خفیہ ڈیل بعد ازاں پروٹوکولز آف سیوراکے عنوان سے تاریخ میں محفوظ ہے۔

صدام اور بعث پارٹی

بریٹانیکا انسائیکلو پیڈیا کے مطابق صدام نے 1957ع میں بعث پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ ان دنوں مصر، شام، عراق اور بعض دیگر عرب ممالک میں جمال عبدالناصر کا طوطی بولتا تھا۔ عرب دنیا میں سوویت یونین کی حامی کمیونسٹ پارٹی بھی ہوا کرتی تھی۔ صدام کے بائیو گرافر سعید ابوریش کے مطابق سال 1958ع تا1961ع صدام حسین کا مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں امریکی سفارتخانے میں آنا جانا رہا۔

سی آئی اے کے افسر جیمز کرچ فیلڈ

امریکی پبلک براڈ کاسٹنگ سروس کے پروگرام فرنٹ لائن میں انٹرویو کے دوران سی آئی اے کے افسر جیمز کرچ فیلڈ نے بتایا کہ 1959ع میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ایلن ڈلس نے انہیں سوویت یونین کے اثر و رسوخ سے نمٹنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں تعینات کیا۔ شعبہ انکا سوویت یونین سے نمٹنا ہی تھا لیکن پچھلے دس برس سے وہ امریکی حکومت کے لیے یورپ میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ کرسمس 1959ع سے قبل انہوں نے اس نئے عہدے کو سنبھالا۔ اگلے دس برس تک وہ سی آئی اے کے مشرق وسطیٰ آپریشنز کے سربراہ رہے۔

 صدام حسین کے بائیو گرافر سعیدابوریش سمیت دیگر موقف

البتہ صدام اور اسکی بعث پارٹی شروع سے دوکشتیوں کے سوار تھے، یعنی دونوں بلاک سے منسلک۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے اس دور کے سی آئی اے افسر جیمز کرچ فیلڈ اور صدام حسین کے بائیو گرافر سعیدابوریش کے موقف کے ساتھ ساتھ اس وقت کے اردن کے حکمران شاہ حسین سمیت دیگر کے موقف کو مد نظر رکھنا ہوگا۔

فیصل وڑائچ کی بیان کردہ سرد جنگ سے متعلق حقائق

یہ کم ترین حوالے ہیں ورنہ امریکی محکمہ خارجہ کے ولیم پولک سمیت مختلف ممالک کی سرکاری شخصیات، مورخین، محققین اور صحافی بھی ان دنوں کے مختلف واقعات کے یا تو خود چشم دید گواہ تھے یا پھر فرسٹ ہینڈ معلومات تک انکی رسائی تھی، انکا موقف بھی موجود ہے۔

امریکا کے ناجائز مفادات کے چوکیدار

اردن کے شاہ حسین کے مطابق1963ع میں عراق میں بعث پارٹی کو برسراقتدار لانے میں سی آئی اے ملوث تھی۔ جیسے 1950ع کے عشرے میں ایران کے تیل کو برطانوی کنٹرول سے حکومتی تحویل میں لینے کی وجہ سے امریکا و برطانیہ نے محمد مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کرکے محمد رضا پہلوی شاہ ایران کو اپنے علاقائی چوکیدار کے طور پر مسلط کردیا تھا۔

صدام ، امریکا کے ناجائز مفادات کے چوکیدار

چونکہ گیارہ فروری 1979ع کو ایران میں شاہ ایران کی بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا۔ اسلامی انقلاب نے امریکا کو اسکے ناجائز مفادات کے چوکیدار سے محروم کردیا۔ اسی لیے صدام کی طویل خدمات اور وفاداری کے صلے میں عراق پر مسلط کردیا گیا۔ صدام 1966ع میں بصرہ میں قائم امریکی قونصلیٹ کے توسط سے امریکی حکومت سے مدد لیتے رہے تھے۔

اپریل 1980ع میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر برزنسکی نے ایک مقالے میں لکھا تھا کہ وہ امریکی حکومت اور عراقی حکومت کے مفادات کے مابین کوئی غیر ہم آہنگی نہیں دیکھتے یعنی دونوں ہم آہنگ تھے۔

جب شاہ نے ایران چھوڑا تو صدام کے لیے یہ موقع پیدا ہوا

امریکی سی آئی اے کے افسر کرچ فیلڈ نے انٹرویو میں بہت واضح الفاظ میں صدام کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ جب شاہ نے ایران کو چھوڑا تو اس سے صدام کے لیے یہ موقع پیدا ہوا کہ وہ شاہ کی جگہ لے لے۔ (یعنی شاہ ایران کے بعد خطے میں امریکی ناجائز مفادات کا چوکیدار حالانکہ سعودی عرب موجود تھا۔)۔

امریکی سفارتکاروں، انٹیلی جنس افسران اور تیل کمپنیوں کے ساتھ مل کر

سی آئی اے کے سابق افسر کرچ فیلڈ نے کہا کہ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ اس عرصے میں صدام نے امریکی سفارتکاروں، انٹیلی جنس افسران اور امریکی تیل کمپنیوں کے ساتھ مل کر عراق میں امریکی پوزیشن مستحکم کرنے میں جانفشانی سے کام کیا۔

امریکی صدر رونالڈ ریگن کے نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے دونلڈ رمسفیلڈ بغداد میں عراقی حکمرا ن صدام سے مصافحہ کرتے ہوئے۔ بیس دسمبر ۱۹۸۳

کرچ فیلڈ کے مطابق امریکی کمپنیوں نے اور خاص طور پر تیل کی کمپنیوں اور ان میں سر فہرست موبل آئل کمپنی تھی، ان سب نے اس دور میں عراق میں وقت، توجہ اور سرمائے کے لحاظ سے بہت بڑی سرمایہ کاری کی۔ اور یہ سب صدام حکومت کے ساتھ مل کر کیا۔

زایونسٹ امریکی سعودی بلاک کے مفاد میں

صدام حکومت نے ایران پر حملہ زایونسٹ امریکی سعودی بلاک کے مفاد میں کیا تھا۔ اگر بات جغرافیائی توسیع کی ہے یا پہل کی تو بھی فیصلہ کرنا آسان ہے۔ عراق نے ایران پر جنگ مسلط کی تھی نہ کہ ایران نے یہ جنگ شروع کی تھی۔ سال2015ع میں سعودی عرب نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یمن پر یلغار کردی، جارحیت کا ارتکاب کیا اور وہ یکطرفہ جنگ تاحال جاری ہے۔

صدام اور سعودی بادشاہ فہد ایران کے خلاف اتحادی اور بعد میں سعودی عرب نے صدام کی عراقی افواج سے بچنے کے لیے امریکا سے مدد مانگی۔

اور اب تو متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان وغیرہ کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد تو حقیقت اور زیادہ کھل کر سامنے آچکی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ امام خمینی کا انقلابی اسلامی ایران امریکی زایونسٹ بلاک کو شروع سے منظور نہیں تھا۔

اس اسلام دوستی، عرب دوستی کی ایران کو سزا

انقلابی اسلامی ایران اس لیے منظور نہیں تھا کیونکہ اس نے نہ صرف امریکی مداخلت سے ایران کو آزاد کروایا تھا بلکہ ایران سے اسرائیل کا سفارتخانہ ختم کرکے اسے فلسطینی سفارتخانہ بھی بنادیا تھا۔ ایران کو اس اسلام دوستی، عرب دوستی کی سزا دینے کے لیے امریکی زایونسٹ سعودی بلاک نے صدام حکومت کے ذریعے یکطرفہ جنگ مسلط کردی تھی۔

پچھلی صدی کی سب سے طویل مدت کنوینشنل جنگ

اب کوئی داستان گوئی کرکے اسے کوئی اور رنگ دے تو یہ تاریخ مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ صدام حکومت کے دور کی مسلط کردہ جنگ کے بارے میں جب فیصل وڑائچ صاحب یہ مانتے ہیں کہ وہ پچھلی صدی کی سب سے طویل مدت کنوینشنل جنگ تھی۔ تو، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ امام خمینی کے ایران نے کم سے کم اپنی جغرافیائی حدود کو آزاد کروانے تک دفاعی جنگ جاری رکھی تھی۔

ایران عصر حاضر کا واحد مسلمان ملک

انٹرنیشنل لاء، انسانی اور اسلامی قوانین اور اخلاقیات کی روشنی میں امام خمینی اور انکا انقلابی اسلامی ایران عصر حاضر کا واحد مسلمان ملک ہے کہ جس نے یہ معجزہ کردکھایا۔ کہنے کو صدام حکومت کے دور کا عراق ایران سے جنگ لڑرہا تھا لیکن پس پردہ پوری دنیا کے بڑے طاقتور ممالک صدام کے پشت پناہ تھے۔ ایران کے خلاف وہ جنگ امریکا کی قیادت میں پورے زایونسٹ امریکی بلاک نے مل کر لڑی تھی۔ حتیٰ کہ سوویت یونین نے بھی صدام حکومت ہی کا ساتھ دیا تھا۔

رھبر فقط روح اللہ
رھبر فقط روح اللہ

اس کے باوجود امام خمینی کا انقلابی اسلامی ایران اس جنگ کا عظیم فاتح بن کر سامنے آیا۔ اور اس دور کے انقلابی اسلامی ایران کے دو نعرے پاکستان میں بھی گونجا کرتے تھے

:

نہ روس نہ امریکا
سپر پاور ہے خدا
حزب فقط حزب اللہ
رہبر فقط روح اللہ

فیصل وڑائچ کی بیان کردہ سرد جنگ سے متعلق حقائق
سبط کمال الدین خان شیعیت نیوز اسپیشل
Pressure from Pakistani nation compels US embassy to apologize on meddling retweet
امریکی صدارتی الیکشن یا انتخابی فراڈ

متعلقہ مضامین

Back to top button