مقبوضہ فلسطین

ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں فلسطین میں‌ یہودی آباد کاری میں دو گنا اضافہ ہوا

فلسطین میں یہودی توسیع پسندی کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے اسرائیلی گروپ ‘نائو پیس’ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ چار سال کے دوران امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد صدارت میں فلسطین میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کی سرگرمیوں میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔

اسرائیلی تنظیم کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ چار سال کے عرصے میں ٹرمپ کے اقتدار اور ان کی حکومت کی غیر معمولی حمایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینی علاقوں میں توسیع پسندی کے بڑے بڑے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کی طرف سے فلسطین میں‌ یہودی آباد کاری سے متعلق موف میں تبدیلی کے نتیجے میں اسرائیلی ریاست کو یہودی آباد کاری اور الحاق کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کا نیا حوصلہ ملا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کی غیر مسبوق تائید اور حمایت ہی کے نتیجے میں فلسطین میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کی سرگرمیوں میں گذشتہ چار سال کے دوران پچھلے سالوں ‌کی نسبت غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

السلام الآن کے مطابق 2017ء سے 2020ء کے دوران فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کے لیے 26 ہزار 331 گھروں کی تعمیر کی منظوری دی گئی کب کہ 2013ء سے 2016ء کے دوران 10 ہزار 331 مکانات کی تعمیر کی منظوری دی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کے دور میں فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے توسیع پسندی کے منصوبوں کے 2425 ٹینڈر جاری کیے جب کہ سنہ 2013ء سے 2016ء تک 1164 ٹینڈر منظورکیے گئے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے مزید ایک ملین یہودی آباد کاروں ‌کو بسانے کے لیے بنیادی ڈھانچے اور سڑکوں کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

انسانی حقوق گروپ کے مطابق فلسطینی علاقوں میں جہاں یہودی آباد کاری کے توسیع پسندی کے منصوبوں میں اضافہ ہوا وہیں ٹرمپ کے دور میں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری اور ان کی گھروں سے اجتماعی بے دخلی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ القدس کی اسلامی کالونی اور الشیخ جراح کالونی سے 6 فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کیا جب کہ ٹرمپ کے اقتدار سے قبل چار سال میں صرف ایک فلسطینی خاندان کو نکالا گیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ امریکا کے نئے صدر جوبائیڈن فلسطین میں ‌یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے خطرات سے آگاہ ہوں گے اور وہ دو ریاستی حل کے لیے کوششیں کریں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button