اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

پاکستان کے شیعہ اسلامی قائدین کا عظیم کردار

شیعہ نسل کشی اورتکفیریت کے باوجود پرامن ردعمل شیعہ اسلامی قائدین اورپاکستان کے شیعہ مسلمان شہریوں کی شرافت اور مظلومیت کا ثبوت ہے۔

پاکستان کے شیعہ اسلامی قائدین کا عظیم کردار

پاکستان کے شیعہ اسلامی قائدین کا عظیم کردارسورج کی روشنی کی طرح عیاں ہے۔  اشرف جلالی سے آصف رضا علوی تک جو کچھ پاکستانیوں نے دیکھا، اس میں کچھ بھی نیاپن نہیں۔ مسلکی اختلافات کی بنیاد پر پاکستان میں مسلمانوں کے مابین بحث مباحثہ، مناظرہ و مکالمہ کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اور آج کل بھی اسی نوعیت کی صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے۔ لیکن ایسی سازشوں کا ناکام بنانے کا سہرا شیعہ اسلامی قائدین کے سر ہے۔

شیعہ اسلامی جماعتوں کے قائدین اور علمائے کرام کی منصفانہ پالیسی

الحمد اللہ رب العالمین کہ جید شیعہ اسلامی جماعتوں کے قائدین اور علمائے کرام نے مسلکی اختلافات پر ایک منصفانہ پالیسی پر عمل کیا۔ اور یہی اس مسئلے کا حل ہے کہ ہر مسلک دیگر مسالک کی مقدسات کی توہین سے گریز کرے۔ البتہ مہذب اور شائستہ انداز میں مستند منابع سے تاریخی حقائق اور انکی بنیاد پر علمی، عقلی و منطقی دلائل کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنا موقف سمجھائیں۔

یا تو ایسے دلائل سے قائل کریں یا ایسے دلائل سن کر قائل ہوجائیں۔ اس میں دھونس اور دھمکی اور دہشت گردی و تعصب سے اجتناب کریں۔

تکفیری نظریات کی بنیاد پر دھونس دھمکی و دہشت گردی

حالیہ تنازعہ و محدود کشیدگی کا آغاز کرنے والوں میں اشرف آصف جلالی نام کے ایک مولوی ہیں۔ البتہ جاننے والے جانتے ہیں کہ تکفیری نظریات کی بنیاد پر دھونس دھمکی و دہشت گردی کے جدید سلسلے کا پاکستان میں بانی حق نواز جھنگوی اور انکی انجمن سپاہ صحابہ نام کی ایک دہشت گرد تنظیم تھی۔

گوکہ اس دہشت گرد ٹولے پر پاکستان حکومت نے پابندی لگاکر اسے غیر قانونی قرار دے دیا۔ لیکن حق نواز جھنگوی کے جانشینوں نے انجمن لشکر جھنگوی بنائی اور اس پلیٹ فارم سے دہشت گردی۔ اس پر بھی پابندی لگادی گئی۔ آج کل یہی لوگ مختلف ناموں سے مولوی محمد احمد لدھیانوی اور دیگر کی قیادت میں فتنہ پھیلا رہے ہیں۔

پاکستان کے شیعہ اسلامی قائدین کا عظیم کردارسورج کی روشنی کی طرح عیاں ہے۔ 

نیا تکفیری ٹولہ پیدا کرنے کی کوشش

لیکن اس مرتبہ انکے آقاؤں نے دیوبندی تکفیریوں کے ساتھ ساتھ بریلویوں میں بھی ایک نیا تکفیری ٹولہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور شیعہ مسلمانوں میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ غالی ٹولہ بھی اسی سرپرست کا پیدا کردہ ہے جس نے ناصبی تکفیری ٹولے کو میدان میں اتارا ہے۔

باغ فدک کے معاملے پرپہلے اشرف آصف جلالی

اس لیے باغ فدک کے معاملے پرپہلے اشرف آصف جلالی نام کے مولوی نے ایک نان ایشو پر فتنہ پھیلایا۔ یہ ماضی کا ایک کیس ہے۔ اشرف جلالی نے جناب سیدہ فاطمہ زہرا بنت رسول اللہ (ﷺ) کے خلاف قاضی بن کر فیصلہ سنادیا۔ انہوں نے جس انداز سے یہ گفتگو کی اس کو خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی امت کے غیرت مند افراد نے خاتون جنت کی شان اقدس میں گستاخی قرار دیا۔

پاکستان کے شیعہ اسلامی قائدین کا عظیم کردار

نہ صرف یہ کہ شیعہ مسلمانوں نے شدید مذمت و مخالفت کی بلکہ اشرف جلالی کو انکے خود کے بعض ہم مسلک علماء کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ البتہ ایسے بھی ہیں جنہوں نے مولوی اشرف جلالی کی مخالفت نہیں کی۔ اسکے باوجود توہین و گستاخی کا مقدمہ درج ہوا۔ آج کل اشرف جلالی جڈیشل ریمانڈ پر سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

ایک اور مولوی میدان میں کودے

پھر انکے معاملے کو بہانہ بناکر قاری زوار بہادر نام کے ایک اور مولوی میدان میں کودے۔ اور جلالی کو رہا نہ کرنے کی صورت میں محرم الحرام میں امام حسین علیہ کی یاد میں سوگ و ماتم کرنے والوں کے ماتمی جلوسوں کو سبوتاژ کرنے کی دھمکی دی۔ امن و امان کو لاحق خطرات کے پیش نظر حکام نے انہیں بھی گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے بٹھادیا۔

اب ایک صاحب آصف رضا علوی سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے بھی باغ فدک ہی کے ایشو پر فیصلہ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی لاڈلی صاحبزادی خاتون جنت جناب سیدہ بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے حق میں سنادیا۔ انکابھی ایک وڈیو کلپ وائرل ہوا۔ ان پر الزام لگاکہ انہوں نے حضرت ابوبکر کے خلاف فیصلہ سنایا اور توہین کی۔

مجلس پڑھنے پر پابندی کا حکمنامہ

لیکن آصف رضا علوی نے ایک وڈیو بیان میں دعویٰ کیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی نواسی بی بی سیدہ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے خطبے سے متعلق گفتگو کررہے تھے۔ اور اس وقت خلیفہ یزید ہوا کرتا تھا۔ جو وڈیو وائرل ہوئی اس میں حضرت ابوبکر کا نام لے کر کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ اس کے باوجود انکے خلاف پولیس نے مقدمہ رجسٹر کرلیا۔ انکے مجلس پڑھنے پر پابندی کا حکمنامہ بھی جاری ہوا۔ انہوں نے وضاحت تو پیش کردی لیکن سوشل میڈیا پر مہم ختم نہیں ہوئی۔

جید شیعہ علمائے کرام اور قائدین
پاکستان کے شیعہ اسلامی قائدین کا عظیم کردار

حالانکہ جید شیعہ علمائے کرام اور قائدین نے اس موضوع پر کھل کر دوسرے مسلک کی مقدسات کے احترام کا عملی مظاہرہ کیا۔ شیعہ علماء کاؤنسل کے رہنما علامہ عارف حسین واحدی تو خوداس معاملے میں پیش پیش رہے۔

یادر ہے کہ آصف رضا علوی ایک متنازعہ ذاکر ہیں۔ چونکہ شیعہ اسلامی عقائد میں اصول دین میں توحید، عدل، نبوت و امامت و قیامت شامل ہیں، اس لیے جو کوئی بھی ان اصول میں سے کسی ایک اصول کی بھی خلاف ورزی کرے تو اسکا شیعہ مسلمان ہونے پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

اہل بیت ؑ نبوۃ ﷺکے معاملے پر متفقہ شیعہ اسلامی عقیدہ

البتہ اہل بیت ؑ نبوۃ ﷺکے معاملے پر یہ متفقہ شیعہ اسلامی عقیدہ ہے کہ بعد از ختم نبوت امت و انسانیت کی قیادت و رہبری کے منصب پر اہل بیت نبوۃ ﷺ ہی فائز ہیں۔ اور جو کوئی جس دور میں بھی اہل بیت ؑ نبوۃﷺ کے مقابلے پر آئے وہ غلط ہے، اور اہل بیت ؑ نبوۃﷺحق پر ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں۔

بارہ آئمہ از اہلبیت نبوۃ پر کامل ایمان و اعتقاد عقیدہ امامت

امیر المومنین، امام المتقین و خلیفۃ المسلمین مولا علی ؑ، انکے فرزند امام حسن ع امام حسین علیہم السلام سے امام محمد مہدی عج تک بارہ آئمہ از اہلبیت نبوۃ پر کامل ایمان و اعتقاد کا نام ہی عقیدہ امامت ہے۔ لیکن یہ منصب بعد از ختم نبوت ہے۔

پاکستان کے شیعہ اسلامی قائدین کا عظیم کردار

اس لیے جو کوئی بھی توحید و نبوت و امامت کو ایک دوسرے کے مقابلے پر لاکر کوئی بھی تکے بازی کرے تو یہ بھی شیعہ اسلامی اصول دین سے متصادم ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں۔

اسی وجہ سے بہت سے ا یسے افراد جومذکورہ تک بندیاں کرکے خود کو ذاکر کہتے ہیں، ان کی مخالفت میں سب سے پہلے مین اسٹریم اثناعشری شیعہ اسلامی مدارس، علماء و قائدین ہی نے آواز بلند کرتے آئے ہیں۔

رسول اکرم ص کی میراث میں سے حصہ

لیکن جہاں تک بات ہے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیﷺ کی میراث یا ترکے کی تو اس معاملے میں جناب سیدہ بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سو فیصد حق بجانب تھیں۔ اور سنی کتب تاریخ کے مطابق بعض امہات المومنین ؓ نے بھی خلیفہ وقت حضرت ابوبکر سے رسول اکرم ص کی میراث میں سے حصہ مانگا تھا۔

ایسا اس لیے تھا کہ یہ املاک یا ترکہ حکومتی تحویل میں تھا۔ اسی طرح رسول اکرم ص کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب نے بھی حصہ مانگا تھا۔ (حضرت شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبیﷺمیں بھی یہ واقعہ نقل کیا گیاہے)۔

سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان محبت قائم کرنے میں رکاوٹ کون؟

چچا بھتیجے کی وراثت میں حصہ دار ہوتا ہے یا نہیں، یہ فقہی ماہرین بتاسکتے ہیں۔ البتہ اولاد اور بیوی کا حصہ تو بہرحال جائداد میں ہوتا ہی ہوتا ہے۔ یہ تو ایک عام آدمی بھی جانتا ہے۔

سنی کتب تاریخ کے مطابق خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے ترکے یا میراث میں سے حق مانگنے والوں میں جناب سیدہ فاطمہؑ زہرا بنت رسول اللہ (ﷺ) تنہا نہیں تھیں۔ بلکہ ازواج مطہرات میں سے بھی بعض ہستیاں تھیں اور رسول اکرم ص کے چچا جو صحابی رسول ص بھی تھے، انہوں نے بھی دعویٰ کیا تھا۔

ہمارے سنی بھائیوں کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ

لہٰذا اس معاملے پر ہمارے سنی بھائیوں کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اگر وہ اس معاملے پر حضرت ابوبکر کی حمایت و دفاع کرتے ہیں تو اسکا مطلب سوائے اسکے کچھ نہیں ہے کہ یہ سنی خود امہات المومنین ؓ اور رسول اکرم ص کے چچا اور صحابی کے خلاف فیصلہ سنارہے ہیں۔

آگے انکی مرضی ہے مگر وہ دیگر مسالک پر اپنا غلط نظریہ مسلط نہیں کرسکتے۔ (ویسے بھی یہ ماضی کا ایک واقعہ ہے۔ اور کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے حقیقت و واقعیت تبدیل نہیں ہوجائے گی۔)

کیا انکی اپنی تشریحات کے مطابق یہ توہین و گستاخی نہیں ہے؟

اہل سنت مسلک امہات المومنین اور اہل بیت نبوۃ (جناب سیدہ فاطمہ زہرا ؑ) کے دعویٰ وراثت کو اگر غلط مانتا ہے تو کیا انکی اپنی تشریحات کے مطابق یہ توہین و گستاخی نہیں ہے؟ اچھی طرح سوچ لیں کہ میراث رسول ص میں حصہ کے مسئلے پر اہل سنت مسلک کو کیا موقف اختیار کرنا ہے۔ کیا آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں!؟۔

یا پھر وہ مدعیان وراثت رسول اکرم ﷺ کہ جنہوں نے حضرت ابوبکر سے اپنا حق مانگا؟ اور یہ مدعیان خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی خاتون جنت بیٹی اور بعض ازواج مطہرات اور چچا و صحابی تھے۔ فیصلہ آپ کرلیں۔

اسلام میں دو الگ قانون نہیں

معیار ایک رہنا چاہیے، جو معیار شیعوں سے متعلق فیصلہ کرتے وقت ہے وہی معیار اہل سنت مسلک پر بھی لاگو ہے۔ اسلام میں دو الگ قانون نہیں ہیں۔ بات صاف ہے کہ اہلسنت مسلک ر سول اکرم ص کی جائداد پر انکے شرعی وارثان کے حق کو نہ مان کر شرع محمدی سے انکار کرتے ہیں اور ساتھ ہی خاتم الانبیاء ﷺ کے شرعی وارثوں کا حق تسلیم نہ کرکے نہ صرف وراثت کے شرعی حق کا انکار کرتے ہیں بلکہ ان کی گستاخی کرتے آرہے ہیں۔

جناب سیدہ بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا دعویٰ درست

شیعہ موقف واضح ہے کہ جناب سیدہ بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا دعویٰ درست تھا۔ وراثت کے معاملے میں انکا موقف مبنی بر حق تھا۔ اوراگر یہ بہانہ مان لیا جائے کہ رسول اکرم ص نے ورثے میں علم ہی چھوڑا تھا تب بھی اس علم کی وارث بھی جناب سیدہ سلام اللہ علیہا ہی تھیں۔

ماننا پڑے گا کہ اسی علم جو رسول اکرم ص سے ورثے میں خاتون جنت بی بی سیدہ سلام اللہ علیہا کو ملا، اسی علم کی بنیاد پر ہی انہوں نے فدک مانگا تھا جو کہ انکی زندگی میں انکی تحویل میں نہیں دیا گیا۔

رسول اکرم ص نے ورثے میں علم ہی چھوڑا تھا

اگر سنی مسلک کی اس تشریح کو مان لیا جائے اور اس کے تحت مہات المومنین کو بھی اس علم میں وارث مان لیں تب بھی انکا اپنا دعویٰ جھوٹ ثابت ہوتا ہے کیونکہ رسول اکرم ص نے اگر ورثے میں علم ہی چھوڑا اور انکے شرعی وارثوں کو یہ علم منتقل ہوا تو یہ ماننا پڑے گا کہ رسول اکرم ص کے ترکے یا جائداد میں شرعی حصہ یا شرع کے مطابق ہبہ شدہ املاک پر انکا دعویٰ علم رسول اکرم ص کی بنیاد ہی پر تھا اور سنی جس قول کو مان کر حق کا انکار کرتے ہیں اسی قول کو معیار بنالیں تب بھی علم رسول ﷺ کے وارثوں کا دعویٰ اور موقف ہی درست ہوا۔

قرآن و اہل بیت نبوۃ سے تمسک واجب
پاکستان کے شیعہ اسلامی قائدین کا عظیم کردار

جہاں تک معاملہ ہے آصف رضا علوی کا تو انکی وضاحت سامنے آچکی ہے۔ ان کے خلاف پرچہ کٹ چکا ہے۔ اب اسکا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ شیعہ مسلمان دیگر مسالک کی مقدسات کے احترام کے قائل ہیں۔ لیکن شیعہ اسلام میں قرآن و اہل بیت نبوۃ سے تمسک واجب ہے اور یہی شیعہ اسلام کے مذہبی پیشوا، معصوم قائد و رہبر ہیں۔

اس لیے دیگر مسالک کو بھی شیعہ اسلامی مقدسات کے احترام کے منافی کوئی چھیڑ خانی نہیں کرنی چاہیے۔ گالم گلوچ اورغلو آمیز باتوں کی شیعہ اسلامی مکتب میں کوئی گنجائش نہیں۔ جو ایسا کرتا ہے، وہ اپنے انفرادی عمل کا خود ذمے دار ہے۔

شیعہ اسلامی قائدین کا عظیم کردار

اور جو ایسے انفرادی عمل کی وجہ سے شیعہ مسلمانوں پر حملوں کی دھمکیاں دیتے ہیں یا شیعہ مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں تو ان کے خلاف سنی مفتیان کیوں خاموش رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اشرف جلالی کی مخالفت پر حملوں کی دھمیاں اور تکفیری تقاریر ریکارڈ پر ہیں۔ جبکہ کسی شیعہ عالم و قائد نے مولوی اشرف جلالی کی وجہ سے بریلوی مسلک کو یا محمد احمد لدھیانوی کی وجہ سے دیوبندی مسلک پر کفر و رفض کے فتوے نہیں سنائے اور نہ ہی دھمکیاں دیں۔

جبکہ آصف رضا علوی کی تقریر پر لدھیانوی ٹولے کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں موجود مولوی نے محرم الحرام شہدائے کربلا کی یاد میں نکالے جانے والے جلوسوں اور شیعہ مسلمانوں پر حملوں کی کھلی دھمکی دی ہے۔

سوال یہ ہے کہ

سوال یہ ہے کہ آصف رضا علوی کوئی جید شیعہ عالم دین یا نمائندہ شیعہ اسلامی جماعت کے قائد ہیں کہ انکی کسی بھی بات پر اوور ری ایکشن کیا جائے!؟ اشرف جلالی کی جانب سے توہین جناب سیدہ سلام اللہ علیہا پر تو کسی سنی نے دھمکی نہیں دی، کیوں؟! انکے پورے مسلک کے کسی بھی جلوس پر حملے کی دھمکی نہیں دی۔

کسی نے بھی اشرف جلالی کو تو کافر یا رافضی نہیں کہا، کیوں؟ کیا اہل بیت ؑنبوۃﷺ کا گستاخ، خاتون جنت کا گستاخ مسلمان ہے؟ اور اگر یہ مسلمان ہے تو پھر باغ فدک کے معاملے پر جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دعوے کو حق ماننے والا کس دلیل سے کافر ہوگیا!؟۔ اہل بیت ؑ نبوۃ بشمول خاتون جنت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گستاخ کے دفاع میں قاری زوار بہادر اور اسکا پوراٹولہ اترا۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ

اصل مسئلہ یہ ہے کہ دیوبندی اور بریلوی مسالک میں اعتدال پسند غیر تکفیری غیر ناصبی جید علمائے کرام کہاں ہیں؟ کون ہیں؟ اور ایسے وقت وہ کیوں ان تکفیری اور ناصبی فسادی ملاؤں کے خلاف کھل کر اپنی رائے ظاہر نہیں کرتے!؟۔ یاد رکھیں کہ یہ دوطرفہ معاملہ ہے۔

شیعہ علماء و قائدین کا رویہ

شیعہ علماء و قائدین کا رویہ انسانی احترام، اسلامی اخلاقیات اور امن و محبت و اخوت کا مظہر ہے۔ جبکہ سنی مولوی خواہ وہ دیوبندی رفیع عثمانی ہو یا بریلوی مفتی منیب الرحمان ہو یا اہل حدیث ابتسام الٰہی ظہیر ہو، ان سب کا رویہ منافقانہ ہے (بہت معذرت کے ساتھ کہ ہم یہ حقیقت لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں لیکن جو مولوی اور جو مسلک امام حسین ع کے قاتل حکمران یزید کو بھی مسلمان مانتا ہے بلکہ چھٹا خلیفہ مانتا ہے، اسے یہ حق نہیں کہ آصف رضا علوی جیسوں کی کسی بھی بات کو بہانہ بناکر شیعہ مسلمانوں پر حملوں کی دھمکی دے یا کافر اور رافضی کہے۔

اگر ایک ہندومندر کے اندر بت کی پوجا کرتا ہے اور عالمین کے رب اللہ کی توہین نہیں ہوتی؟۔ اگر ایک مسیحی کلیساء کے اندر صلیب پر تثلیث کے مشرکانہ عقیدے کا اظہار کرتا ہے اور اللہ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بی بی مریم سلام اللہ علیہا کی توہین نہیں ہوتی؟ اور ان پر شور نہیں مچاتے، انکے خلاف سوشل میڈیا کے پیجز پر خاموش ہیں تو پھر ہر مرتبہ خاموش رہیں۔

حضرت عثمان کے یوم شہادت پر جلوس نکالنے کی روایت

تو پھر آصف رضا علوی کا کسی مسلک کی غیر معصوم مقدس ہستی کے مقابلے پر بنت ؑرسول اللہ ﷺ یعنی خاتم الانبیاء ﷺ کی بیٹی جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے وراثت میں حصہ مانگنے کے موقف کو حق مان لینا ایسا کونسا بڑا مسئلہ ہے کہ اس پر شور مچاکر دھمکیاں دے کر فتتنہ پھیلایا جائے۔ اشرف جلالی نے بھی تو جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا حق ماننے سے انکار کردیا تھا اور وہ تو یوٹیوب چینل پر کیا تھا۔

ایمان مفصل سنی عقیدہ ایمانیات

سنی عقیدہ میں ایمان مفصل میں تواللہ، رسول، انبیاء ؑ پر نازل کردہ کتب، ملائکہ اور قیامت پر ایمان کو ایمانیات کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ سنی عقیدہ ایمانیات میں کسی صحابی یا ام المومنین پر ایمان لانا ایمانیات میں شامل ہی نہیں۔

 اللہ، اللہ کے رسول ﷺ اور اہل بیت نبوۃ ﷺ سے بھی اوپر کی ہستیاں

اس لیے ہم اپنے سنی بھائیوں کی خدمت میں مودبانہ یہ شکوہ کرنے پر مجبور ہیں کہ عالمین کے رب اللہ اور عالمین کی رحمت حضرت محمد ﷺ اور انکی وہ آل و اہلبیت ؑ جس پر درود کے بغیر کسی سنی شیعہ مسلمان کی نماز قبول نہیں، انکی توہین پر خاموشی اور وہ ہستیاں جو نہ نبی ہیں نہ معصوم ہیں اورجن پر نماز کے تشہد میں بھی اصحاب یا ام المومنین ازواج مطہرات کے عنوان سے درود میں شامل نہیں ہیں، یہ کیا اللہ، اللہ کے رسول اور اہل بیت نبوۃ ﷺ سے بھی کوئی اوپر کی ہستیاں ہیں!؟۔

کبھی ہمارے اس شکوے پر بھی غور کیا کریں

کبھی ہمارے اس شکوے پر بھی غور کیا کریں۔ اطیعواللہ و اطیعوالرسول و اولی الامر منکم والی آیت میں بھی صحابہ اور امہات المومنین کے عنوان سے کوئی اطاعت کا حکم نہیں ہے۔ اور کس طرح اللہ اور اللہ کا رسول ﷺ آپکو سمجھاتا کہ آپ مان جاتے۔ اللہ کے رسول نے قیامت تک کے لیے قرآن و اہل بیت ؑ نبوۃ سے تمسک کی وصیت کی ہے اور آپ کی زندگی میں اس حدیث کی آج تک کوئی حیثیت اور اہمیت کم سے کم ہم نے تو نہیں دیکھی۔

مکتب اہل بیت ہمیں کسی کی تکفیر یا مقدسات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا

اسکے باوجو بزرگ شیعہ علمائے اسلام نے واضح طور پر سنیوں کے بزرگ خلیفہ سے متعلق انکے کلمات پر کھل کر تنقید کی، مخالفت کی ہے۔ خاص طور پر علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کھل کر کہا ہے کہ مکتب اہل بیت ہمیں کسی کی تکفیر (یعنی کسی کو کافر کہنے) یا مقدسات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ (یعنی شیعہ مسلمان جس مکتب اہل بیت ؑنبوۃﷺکے پیروکار ہیں اس مکتب کے مطابق تکفیر منع ہے دوسروں کی مقدسات کی توہین منع ہے)۔

پاکستان کےشیعہ اسلامی قائدین اور شیعہ مسلمان

شیعہ نسل کشی اورتکفیریت کے باوجود شیعہ اسلامی قائدین نے پرامن ردعمل کی پالیسی پر عمل کیا۔ یہی شیعہ اسلامی قائدین اورپاکستان کے شیعہ مسلمان شہریوں کی شرافت اور مظلومیت کا ثبوت ہے۔ لیکن افسوس کہ جس مملکت کا بانی شیعہ اثناعشری مسلمان قائداعظم محمدعلی جناح ہے، وہاں دارالعلوم دیوبند بھارت کی پالیسی پر تکفیری دہشت گرد مولوی کھل کر عمل کررہے ہیں۔

محمد عمار شیعیت نیوز اسپیشل
شیعہ کافرمہم چلانے کا فیصلہ دارالعلوم دیوبند بھارت میں ہوا
Martyrdom anniversary of the youngest Shia mourner baby held

متعلقہ مضامین

Back to top button