اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

پاکستان کےمظلوم شیعوں کے مظلوم قائد علامہ عارف حسینی

پاکستان کےمظلوم شیعوں کے مظلوم قائد علامہ عارف حسینی

پاکستان کےمظلوم شیعوں کے مظلوم قائد علامہ عارف حسینی نے 5اگست 1988ء کو جام شہادت نوش کرکے خود کو تاریخ مہدویت میں امر کردیا۔ مظلومیت یہ کہ مولاامیر المومنین ع کے اس حقیقی محب، سرور و سالار شہیدان کے اس عظیم عزادار کی شخصیت کو عوام الناس میں مسخ کرکے پیش کیا جاتا رہا۔

مسموم فضاء میں بھی وہ ڈٹ کر کھڑا رہا

ایک طرف نام نہاد اپنوں کی یہ بدگمانیاں، سوئے ظن و سوئے تفاہم تھا۔ دوسری طرف دیگر بھی کچھ کم نہ تھے۔ یوں لگتا کہ مکتب کاذب اکبر کے سارے پیروکار وں نے علامہ سید عارف حسینی سے متعلق جھوٹ بولنے کی قسم کھارکھی تھی۔

ٓ اس مسموم فضاء میں بھی وہ ڈٹ کر کھڑا رہا کہ غلط ملامت کرنے والوں کی ملامت کو ایسے حیدری و حسینی خاطر میں ہی کب لاتے ہیں۔ آج بھی اس کی گفتار، رفتار، کردار تاریخ میں کھلی کتاب کی مانند محفوظ ہے۔ وڈیو،آڈیو کی صورت میں، کتب کی صورت میں۔ محققین کی تحقیق کے لئے وسائل مہیا ہیں۔

درست فکرو بصیرت دے گیا

وہ شیعہ مسلمانوں کے لئے قرآن و اہلبیت ع (فقہ جعفریہ) کے نفاذ کی تحریک کا قائد تھا۔ وہ عزاداری سیدالشہداء کا مدافع تھا۔ ایک عرصے تک شب جمعہ امام حسین علیہ السلام کے حرم مطہر کا پیدل زائر رہا۔ وہ نجف و کربلا و قم سے اپنے مولا و آقا امام و امامزادگان سے بہت کچھ لے کر آیا تھا۔ اور تمام تر سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے وہ اپنی ملت کو کم سے کم یہ تو دینے میں کامیاب رہا کہ قرآن و اہلبیت ؑ کے فرمودات کی روشنی میں ہدف کیا ہے اور اسکے حصول کا شفاف طریقہ کیا ہے۔

کیا اسکا یہ احسان کم ہے کہ درست فکرو بصیرت دے گیا۔ اس نے شیعہ کو حقیقی اسلامی وقرآنی و امامی شناخت دی۔ ریاست و حکومت یا معاشرے کے ہر شعبے میں شیعہ نمائندگی اسکا مطالبہ تھا۔ وہ قرآن و اہلبیت ع کے فرامین کی روشنی میں پاکستان کی سیاست میں حصہ لے رہا تھا۔

اتحاد کا داعی

حقیقی اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھ انہی الٰہی اہداف کے حصول کے لیے وہ الیکشن میں حصہ لینے کا بھی قائل تھا۔ اسی کی قیادت میں تحریک نے اس ضمن میں فیصلہ بھی کرلیا تھا۔ بظاہر یہ ایک کمیونٹی کے حق میں اسکا کردار تھا لیکن تنگ نظری سے ہٹ کر دیکھیں تو وہ نہ صرف مومنین کے اتحاد کا قائل تھا بلکہ وہ مسلمانوں کے دیگر مسالک سے بھی شیعہ اسلام کے پیروکاروں کے اتحاد کا داعی تھا۔

مکتب لفاظی کے پیروکار اسکی عظمت کو درک نہیں کرسکتے

وہ باتوں کا نہیں عمل کا دھنی تھا۔ وہ مرد میدان تھا۔ مکتب لفاظی کے پیروکار اسکی عظمت کو درک نہیں کرسکتے۔ وہ انسانوں سے محبت کرنے والا انسان تھا۔ البتہ سب سے زیادہ وہ خاص طور پر عملی مومنین سے اور بالعموم ہر محب اہلبیت ؑ سے محبت رکھتا تھا۔

وہ امام حسین علیہ السلام کی کربلائی فکر کا حقیقی وارث تھا۔ وہ پاکستان کی سرزمین پر امام زادگان عشق کا مقامی سالار تھا۔ وہی عارف حسینی جو پاکستان کی سرزمین پر جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے روحانی بیٹوں کا حقیقی قائد تھا۔

حیدر کی للکار بن کر گونجا

وہ ایک جامع الشرائط عالم تھا۔ وہ 1980ع کے عشرے میں حیدر کی للکار بن کر گونجا۔ اس نے حیدر کرار اور جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے مطیع کی حیثیت سے حق مانگا۔ لیکن تاریخ انسانیت کے بدترین گیدڑوں نے سفاک بھیڑیوں کے ساتھ مل کر حق کی اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے اسے قتل کروادیا۔

اسکی آواز خاموش نہیں کی جاسکتی

وہ حسینی تھا، اس لئے شہادت اسکا واقعی ورثہ تھی۔ اسے میراث میں شہادت ملی۔ لیکن انسان نما گدھے کی عقل رکھنے والے گیدڑوں اور سفاک بھیڑیوں کو معلوم نہیں کہ شہید زندہ و جاوید ہوتا ہے۔ اسکی آواز خاموش نہیں کی جاسکتی۔

پاکستان کےمظلوم شیعوں کے مظلوم قائد علامہ عارف حسینی

اسکے افکار قرآن و اہلبیت ؑ سے ماخوذ تھے۔ کیونکہ وہ خدا کی طرف متوجہ ہوکر اپنے آقایان، پیشوایان، آئمہ اطہار (اور) بالخصوص ناموس دہر، قلب عالم امکان، رابطہ فیض بین خالق و مخلوق مہدی موعود عج کی طرف متوجہ ہوکر گدائی کا ہاتھ بلند کیا کرتا تھا۔

سب سے اول اس کا خداپر توکل تھا اور وہ ہر وقت محمد و آل محمد علیہم السلام بالخصوص حضرت ولی عصر کی خدمت میں استغاثہ کرتا رہتا تھا۔ اسکا دل اپنی اس ملت محروم و مظلوم کی مظلومیت پر بے چین رہتا تھا۔ اس مظلومیت پر اسکا دل روتا تھا۔ اور وہ قیادت کا طالب نہیں تھا۔

علی ؑ علی ؑ کے نعرے

خدا شاہد کہ وہ وظیفہ شرعی سمجھ کر ملت جعفریہ کی خدمت کیلئے میدان میں آیا۔ دنیاوی، مادی و ناجائز فائدہ اٹھانے کو حرام قرار دینے والا وہ علی ؑ علی ؑ کے نعرے لگانے والوں کو باہمی اختلاف سے روکتا تھا۔

پھر وہ بات کسی میں دیکھی نہ گئی

اس سانچے میں قدرت نے وہ ایک ہی خلق کیا تھا۔ اسکی شہادت کے بعد کے شب و روز گواہ ہیں کہ پھر وہ بات کسی میں دیکھی نہ گئی۔ پاکستان اور پاکستانی شیعہ مسلمانوں کے حقوق کی تحریک اسی ایک کے افکار میں مقید ہوکر رہ گئے۔

پاکستان کی تشیع کے لئے وہ معیار قرار پایا۔ قیادت کے لئے وہ معیار، علماء و ذاکرین کے لئے وہ معیار۔ تنظیم، جماعت، الیکشن، سیاست، جمہوریت، ہر شعبے میں اسکا نظریہ واضح، صاف و شفاف۔ عام افراد کے لئے بھی دیدہ و دل فرش راہ کرنے والے اس عالم کی آن بان شان ہی کچھ اور تھی۔

نظریے میں کوئی جھول، تناقض یا تضاد نہیں

اسکے کسی نظریے میں کوئی جھول، تناقض یا تضاد نہیں تھا۔ کیونکہ وہ پورے وجود کے ساتھ قرآن و اہلبیت ع پر ایمان کامل کا حامل تھا۔ اسکا عمل اسکے قول کی صداقت کا ثبوت تھا۔ اس نے جوانوں کی راہ نمائی و رہبری کی۔

صرف شیعہ مسلمان ہی نہیں بلکہ اگر ریاست پاکستان کو بھی بحران سے نکلنا ہے تو اسکا حل بھی پاکستان کے اس باوفا اور غیرت مند بیٹے علامہ عارف حسین ال حسینی نے بتادیا تھا۔ امریکا اور اسکے اتحادیوں کی ڈکٹیشن مت مانو۔

اپنا عقیدہ دوسروں پر مسلط مت کرو

متحد ہوکر چیلنجز کا سامنا کرو۔ اختلافات و تنازعات ختم کرو۔ مل بیٹھو۔ امن و سکون سے رہو، رہنے دو۔ اپنا عقیدہ دوسروں پر مسلط مت کرو۔ حنفی، اہل حدیث، جعفری اور صوفیاء سبھی اپنی اپنی فقہ کے مطابق زندگی گذارنے میں آزاد ہوں۔ نمائندہ جمہوری حکومت ہو۔

افکارحسینی میں تحریف کا ظلم

اور آج حالت یہ ہے کہ تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ دینی و سیاسی جماعت کے اس عظیم قائد کے افکار سے متعلق نوجوانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ باالفاظ دیگر علامہ عارف حسینی، انکی جماعت اور اسکی سیاست و الیکشن میں حصہ لینے والی پالیسی کو طاغوت اور سامری کے بچھڑے جیسی تہمتوں کا سامنا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ افکار عارف حسینی کو معاشرے میں اسی طرح متعارف کروایا جائے جیسے وہ ہیں، اس میں تحریف کا راستہ بند کردیا جائے۔

پاکستان کےمظلوم شیعوں کے مظلوم قائد علامہ عارف حسینی

آج کے دور میں بھی بعض منحرف اس عظیم ہستی کے افکارکے نام پر اپنے من پسند نظریات پیش کررہے ہیں، اوراس تناظرمیں علامہ عارف حسینی کی مظلومیت آج بھی برقرار ہے۔

عین علی برائے شیعیت نیوز اسپیشل
چوہدری جھنگوی لدھیانوی لیگ معاویہ اعظم گروپ کا قیام
Shia Muslims hold protest with demand for end to enforced disappearance

متعلقہ مضامین

Back to top button