اہم ترین خبریںپاکستان کی اہم خبریں

جموں و کشمیر میں پچھلے 11ماہ میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کی گئیں

شیعت نیوز : جموں و کشمیر میں لاک ڈاؤن کے دوران انسانی حقوق پر پائے جانے والے اثرات سے متعلق ایک رپورٹ نے صورتحال کو انتہائی سنگین قرار دیتے ہوئے گذشتہ سال 5 اگست سے ہونے والے تمام اقدامات کو واپس لینے کے لئے کہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پچھلے 11 مہینوں کے دوران طاقت کے استعمال کو عوامی ، شہری اور انسانی سلامتی کے مقابلے میں ترجیح دی گئی ہے ، جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہوئی ہے۔

ساوتھ ایشین وائر کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضمانت اور حق اور فوری مقدمے کی سماعت کے حق سے عوام کو محروم کیا گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی اظہار آزادی رائے کو ختم کرنے کے لئے پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) اور غیر قانونی سرگرمیوں سے بچاؤ کے ایکٹ (UAPA) جیسے سخت قوانین کا استعمال کیا گیا۔

ساوتھ ایشین وائر کے مطابق’’دی فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں اینڈ کشمیر‘‘ نامی تنظیم نے پی ایس اے کو فوری طور پر منسوخ کرنے اور بقیہ سیاسی رہنماوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ جن میں ، پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی شامل ہیں۔جموں و کشمیر کے حقوق انسانی کے فورم کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد ، چین تنازعہ کشمیر کا تیسرا فریق بن گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : افغانستان کے دو شہروں سے امریکی فوجیوں کا انخلاء، 45 طالبان ہلاک

مقبوضہ جموں و کشمیر میں گذشتہ ایک سال سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے مقامی معیشت کو تقریبا 40 ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے ۔یہ انکشافات ’’ دی فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں اینڈ کشمیر‘‘ نامی تنظیم نے اپنی رپورٹ بعنوان جموں و کشمیر: انسانی حقوق پر لاک ڈاؤن کے اثرات (اگست 2019 تا جولائی 2020 )میں کیا ہے ۔21 ممتاز ہندوستانی شہریوں پر مشتمل اس فورم کی سربراہی سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جج جسٹس مدن بی لوکر اور سابق خاتون مذاکرات کار برائے جموں و کشمیر پروفیسر رادھا کمار کر رہے ہیں۔

ساوتھ ایشین وائر کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ فیصلے کی وجہ سے کشمیری عوام ہندوستان اور اس میں رہنے والے عوام سے مکمل طور پر بیگانہ ہوگئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کیخلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے کالے قانون ’’یو اے پی اے ‘‘ کے تحت مقدمے درج کئے جاتے ہیں۔ اس میں مقبوضہ جموں و کشمیر حکومت کی نئی میڈیا پالیسی کو ’’آزاد میڈیا‘‘ اور ’’اظہار رائے کی آزادی‘‘ پر حملہ قرار دیا گیا ہے ۔

جموں و کشمیر میں نئے ڈومیسائل قوانین کے نفاذ، جن کے تحت غیر مقامی شہری بھی یہاں رہائش اختیار کر سکتے ہیں، نے اس یونین ٹریٹری میں بے روزگاری بڑھنے کے خدشات کو جنم دیا ہے ۔

ساوتھ ایشین وائر کے مطابق ’’کشمیر‘‘ کئی طریقوں سے ہندوستان کی جمہوریت کیلئے لٹمس ٹیسٹ تھا لیکن ہم اس میں بری طرح سے ناکام ہوچکے ہیں۔

ساوتھ ایشین وائر کے مطابق 70 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں جاری مسلسل لاک ڈاؤن کے تعلیمی شعبے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور سست رفتار 2G موبائل انٹرنیٹ سروس کے باعث آن لائن کلاسزکا انعقاد ناممکن ہوگیا ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button