چھ 6 جولائی 1980ع سے پہلے اور بعد کا پاکستان

چھ 6 جولائی 1980ع سے پہلے اور بعد کا پاکستان
چھ 6 جولائی 1980ع سے پہلے اور بعد کا پاکستان.. تاریخ پاکستان میں 6جولائی 1980ع ہر لحاظ سے ایک اہم اور یادگار دن تھا۔ اور تاریخ میں یہ دن ہمیشہ ناقابل فراموش رہے گا۔ اس تحریر کا مقصد 6جولائی 1980ع کے حوالے سے مخالفین کی غلط بیانیوں اور جھوٹے دعووں کے مقابلے میں سچ کو بیان کرنا ہے۔
کاذبین یعنی جھوٹوں پر لعنت
سوشل میڈیا پر ایک کالعدم دہشت گرد گروہ سپاہ صحابہ کے مولوی لدھیانوی کا وڈیو کلپ دیکھا۔ پاکستان میں شیعہ اسلامی حقوق کی پرامن جمہوری دینی و سیاسی تحریک سے متعلق مولوی لدھیانوی نے دل کھول کر جھوٹ بولا۔ حالانکہ قرآن کے مطابق اللہ نے کاذبین یعنی جھوٹوں پر لعنت کی ہے۔
انقلاب ایران پر الزام
کالعدم سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی سمیت جو کوئی بھی پاکستان کی شیعہ اسلامی حقوق کی تحریک یا اختلافی مسائل پرشیعہ موقف میں انقلاب ایران پر الزام لگاتا ہے، وہ جھوٹا ہے۔ اور یہ تحریر سو فیصد سچ کو بیان کررہی ہے۔
شیعہ اسلامی حقوق کے لحاظ سے انقلاب ایران سے پہلے بھی مختلف علماء و ذاکرین و دیگر شیعہ زعماء کی قیادت و رہنمائی میں جدوجہد ہوتی رہی ہے۔ اس موضوع پر مورخین اور محققین خود تحقیق کرلیں تو یہ پوشیدہ راز نہیں ہے۔
سید محمد دہلوی صاحب اور جمیل رضوی
مفتی جعفر حسین پہلے سے ملک میں اسلامی سیاست کے حوالے سے ایک معروف قائد و رہنما و عالم دین تھے۔ اور قرارداد مقاصد پر انکے بھی دستخط موجود ہیں۔ اسی طرح سید محمد دہلوی صاحب اور بقول سبط جعفر شہید کے جمیل رضوی بھی اس شعبے میں سرکردہ رہنما رہے۔
کتب یا مناظروں کے حوالے سے بھی یہ ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ جب جب شیعہ مسلمانوں پر تکفیری و رفضی فتوے اور الزامات کو دہرایا گیا، تب تب شیعہ اسلام کے غیرت مند فرزندوں نے اسکا دندان شکن مدلل، مستند اور دندان شکن جواب دیا۔ یہ شعبہ بھی مورخین و محققین کے لئے کھلا ہے کہ وہ خود اس کو تلاش کرسکتے ہیں۔
محرم الحرام میں عزاداری کے شیعہ اجتماعات
جہاں تک الزام ہے محرم الحرام میں عزاداری کے شیعہ اجتماعات اور ان پر اعتراض اور حملوں کا تو کسی نہ کسی انداز میں یہ سلسلہ بھی جاری تھا۔ سروش عرفانی نے ڈیلی ٹائمز اخبار میں اس موضوع پر ایک تحریر میں غالباً 1950ع میں حیدرآباد سندھ میں ایک حملے کو اس سلسلے کا پہلا رپورٹڈ حملہ قرار دیا۔
بدترین سفاکیت و درندگی
جبکہ ایوب خان کے دور حکومت میں خیرپور جوکہ خود شیعہ ریاست تھی، وہاں لدھیانوی کے ہم مسلک تکفیریوں نے یوم عاشورا کو ایک سید کے گھر میں مجلس عزا اور محلے میں جلوس پر حملہ کیا۔ اور بدترین سفاکیت و درندگی کے ساتھ شیعہ مسلمانوں کو شہدائے کربلاکی یاد منانے کی سزا دی۔ کلہاڑیوں کے وار سے شہید کیا۔ پھر کنویں میں پھینکا اور آگ لگاکر لاشیں جلادیں۔
اس نوعیت کی نفرت اور سفاکانکہ درندگی یا وحشی پن کا پاکستان میں بانی لدھیانوی ہم مسلک ٹولہ ہی ہے۔ اور یہ سب انقلاب ایران سے بہت پہلے کے واقعات و سانحات ہیں جو پاکستان میں رونما ہوئے۔
مفتی جعفر حسین اور مفتی کفایت حسین اعلی اللہ مقامہ
جس وقت شیعہ مفتی جعفر حسین اور مفتی کفایت حسین اعلی اللہ مقامہ نے قرارداد مقاصد پر دستخط کرکے پاکستان کو آئینی و قانونی لحاظ سے اسلامی شناخت پر مہر ثبت کی تب بھی شیعہ اثناعشری عقیدہ وہی تھا جو آج ہے۔ اسی طرح جب قادیانیت کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک چلائی گئی تب بھی شیعہ علماء و زعماء اس تحریک میں دیگر مسلک کے مسلمانوں کے شانہ بشانہ تھے۔ تب بھی ایران میں انقلاب اسلامی کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔
تکفیری کاذبین
اور ان تکفیری کاذبین کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ایران انقلاب اسلامی کے بعد سے شیعہ ریاست نہیں بنی بلکہ یہ صفوی بادشاہت کے دور سے شیعہ ریاست ہے اور تب سے محمد رضا شاہ پہلوی تک جتنے بھی حکمران بادشاہ کے عنوان سے آئے وہ سب بھی خود کو شیعہ اثنا عشری ہی کہتے تھے۔ اور خلافت و امامت کی بحث میں وہ بھی مولا امیر المومنین ع کو رسول اکرم ص کا بلافصل حقیقی جانشین بعنوان امام مانا کرتے تھے۔
پہلوی بادشاہ پاکستان کے سنی حکمرانوں کا بڑا بھائی
پاکستان بننے کے بعد انقلاب ایران سے پہلے تک محمد رضا شاہ پہلوی ہی ایران کا بادشاہ تھا۔ تب وہ پہلوی بادشاہ پاکستان کے سنی حکمرانوں کا بڑا بھائی ہوا کرتا تھا۔ اسکی ڈکٹیشن مانی جاتی تھی۔ اسکے لئے سرخ قالین بچھاکر اسی طرح استقبال کیا جاتا تھا جیسے اب محمد بن سلمان سعودی ولیعہد سلطنت کا کیا گیا تھا۔
تکفیری و ناصبی ٹولے کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ایران میں انقلاب کے آنے کے بعد سنی شیعہ اختلاف نہیں پیدا ہوا۔ نہ ہی انقلاب ایران کے بعد کوئی کتابیں لکھیں گئیں۔ یہ کتب اس وقت بھی موجود تھیں جب محمد رضا شاہ پہلوی ایران کا حاکم تھا۔
انقلاب ایران کے بعد
لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ انقلاب ایران کے بعد پاکستان میں جنرل محمد ضیاء الحق کے غیر آئینی مارشل لاء دور حکومت میں ایک طرف شیعہ مسلمان شہریوں سے زبردستی زکات وصول کرنے کا حکم جاری کیا گیا جو کہ شیعہ اسلامی فقہ کے مطابق غیر شرعی حکم تھا۔ نہ صرف یہ کہ یہ حکم جاری ہوا بلکہ پاکستان میں ایک عدد تحریک نفاذ فقہ حنفیہ بھی شروع ہوچکی تھی۔
غیر آئینی و غیر قانونی و غیر شرعی حکمرا ن جنرل ضیاء
اس پس منظر میں ریاست پاکستان کے غیر آئینی و غیر قانونی و غیر شرعی حکمرا ن جنرل ضیاء اور اسکے ٹولے کے ان غلط اقدامات کے جواب میں، ردعمل میں شیعہ دینی سیاسی زعماء نے ایک پرامن تحریک کا آغاز کیا۔ جسے بعد میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نام دیا گیا۔ علامہ سید ساجد علی نقوی کی قیادت میں اس تحریک کا نام تحریک جعفریہ پاکستان رکھ دیا گیا۔
شیعہ اسلامی سیاسی حقوق کی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ
یہ وہ پس منظر ہے جس میں مفتی جعفر حسین کی قیادت میں شیعہ اسلامی سیاسی حقوق کی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ معرض وجود میں آئی۔ دوسری تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کی قیادت نے شروع سے واضح کردیا تھا کہ نفاذ جعفریہ کا مطلب شیعہ اثناعشری جعفری پاکستانیوں پر فقہ جعفری کا نفاذہونا چاہیے نہ کہ فقہ حنفیہ کا۔ جبکہ تحریک نفاذ فقہ حنفیہ کا پورا زور پورے پاکستان پر انکی فقہ کا نٖفاذ تھا۔
حالانکہ ہمارے حنفی علمائے کرام خود جانتے ہیں کہ انکے امام ابو حنیفہ خود اصلاً ایرانی ہی تھے۔ اور وہ یہ بھی جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ خود امام اہلبیت حضرت جعفر صادق ع کے شاگردوں میں سے تھے۔
گھٹیا بکواسیات
اسی طرح علامہ غلام حسین نجفی صاحب یا عبدالکریم مشتاق جیسے افراد نے اگر کتب تحریر کیں تو یہ جوابی کارروائی تھی۔ لدھیانوی اور لشکر جھنگوی کے ابے حق نواز نے جس طرح کی گھٹیا بکواسیات شروع کررکھی تھی، اور جو جھوٹے الزامات شیعوں پر لگائے تھے، اسکا جواب کسی نے کسی نے تو دینا ہی تھا۔ دوسری بات یہ کہ اگر ان دونوں کے دلائل کا جواب تکفیری ناصبیوں کے پاس تھا تو ان دونوں کو شہید کیوں کیا!؟
ساتھ ہی لدھیانوی کاذب کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ غلام حسین نجفی کے نام کے ساتھ لفظ نجفی کا مطلب یہ کہ انکا تعلیمی سلسلہ عراق کے شہر نجف سے تھا نہ کہ ایران سے۔ جبکہ عبدالکریم مشتاق صاحب تو ایک صحافتی ادارے سے وابستہ تھے۔ ان دونوں کا ایران سے کیا تعلق؟
توحید، عدل، نبوت، امامت و قیامت
شیعہ اثناعشری مسلمان کہتے ہی اسکو ہیں جو توحید، عدل، نبوت، امامت و قیامت پر اصول دین کے عنوان سے کامل ایمان و اعتقاد رکھے۔ اور اسی کے تحت فروع دین کے واجبات و مستحبات کو ادا کرے۔ واجبات یعنی یومیہ واجب نمازیں (سنی اصطلاح میں فرض نمازیں شیعہ اصطلاح میں واجب کہلاتیں ہیں)۔ واجب روزے، واجب حج، واجب خمس و زکات، وغیرہ وغیرہ۔ (سنی تو خمس دیتے ہی نہیں ہیں اور شیعوں پر جھوٹا الزام لگادیتے ہیں کہ شیعہ زکات کے منکر ہیں)۔
یہ محض چند نکات ہیں جن سے بہت آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں شیعہ اسلامی حقوق کی تحریک سے متعلق دشمنوں اور مخالفین کا موقف سوفیصد جھوٹ پر مبنی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انقلاب ایران کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی تبدیل ہوئی اور امریکا کو بزرگ شیطان کہہ کر مردہ باد کہا گیا۔ اس لئے امریکی شیطانی ایجنڈا کے تحت حق نواز جھنگوی کے مسلک کو امریکی سعودی سرپرستی کی وجہ سے پاکستان میں غیر اعلانیہ سرکاری ریاستی مسلک کے طور پر مسلط کردیا گیا۔
قائداعثم محمدعلی جناح بھی کافر قرار
اورامریکا اور سعودی ڈالر اور ریال میں اتنی طاقت تھی کہ روئے ارض کی احمق ترین ریاست پاکستان نے اپنے با نی قائداعثم محمدعلی جناح کو بھی کافر قرار دینے والوں کو آج تک پروٹوکول دے رکھا ہے۔
لدھیانوی کے اجداد کو بھی معلوم تھا کہ محمد علی جناح شیعہ ہے۔ اسکے باوجودجناح صاحب کے ساتھ بھی دو بزرگان کو ساتھ کردیا۔ اور انہی میں سے ایک نے جناح صاحب کی نماز جنازہ بھی پڑھائی۔ یاد رہے کہ شیعہ اثناعشری طریقے سے قائد اعظم محمد علی جناح کا غسل بھی ہوا اور نماز جنازہ گھر کے اندر ہوئی۔ جبکہ باہر ایک اور مرتبہ نماز جنازہ ہوئی۔
تکفیری موقف کا مطلب
لدھیانوی ٹولے کو معلوم ہونا چاہیے کہ انکے تکفیری موقف کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے بزرگان کو بھی گمراہ و کافر کہہ رہے ہیں۔ لدھیانوی و جھنگوی ٹولہ جاکر اپنی فقہ پڑھ لیں۔ اور اگر جناح صاحب مسلمان ہیں تو لدھیانوی و جھنگوی ٹولہ خود لعنتی مجرم ہیں کیونکہ کاذبین و قاتلین میں سے ہیں۔