اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلعراقمقالہ جات

عراق کی نئی حکومت اور پرانے مسائل

عراق کی نئی حکومت اور پرانے مسائل

عراق کی نئی حکومت اور پرانے مسائل. . عراقی صدر برہم صالح کے نامزد کرد ہ مصطفی ال کاظمی خوش قسمت نکلے کہ پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے وہ عراق کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔

ساتھ ہی انکے نامزدکردہ 22افراد میں سے 15افراد مختلف وزارتوں کے لئے بحیثیت وزیر پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ مئی 2020کا پہلا ہفتہ طرح گذرا کہ عراق کو ایک اور نئی حکومت مل گئی۔ ورنہ پہلے دو نامزد امیدوار اعظم توفیق علاوی اور عدنان ال زرفی تو پارلیمانی اعتماد حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے تھے۔

مصطفی ال کاظمی

مصطفی ال کاظمی انسانی حقوق کے سرگرم کارکن رہ چکے ہیں۔ صدام دور حکومت میں بھی وہ اسی شعبے میں فعالیت رکھتے تھے۔ مصطفی عبداللطیف کاظمی 1985ع میں عراق سے نقل مکانی کرگئے تھے۔ جرمنی کے بعد برطانیہ کو انہوں نے وطن بنالیا یعنی وہ برطانوی شہریت بھی رکھتے ہیں۔ 2003ع کی امریکی جنگ کے بعد وہ عراق آئے۔ انہوں نے یہاں میڈیا نیٹ ورک قائم کیا۔

قومی انٹیلی جنس ایجنسی کی سربراہی تک

اسکے علاوہ ایک ادارہ موسسہ الذاکرۃ العراقیہ (عراق میموری فاؤنڈیشن) بنایا جس کا مقصد صدام بعثی حکومت کے مظالم سے عوام کو آگاہ رکھنا تھا۔ چار پانچ سال تک وہ باقاعدہ صحافت کے شعبے سے بھی منسلک رہے۔

اور صحافت سے سیدھا عراق کی قومی انٹیلی جنس ایجنسی کی سربراہی تک جا پہنچے۔ 2016ع سے وہ اس عہدے پر فائزتھے کہ جب عراقی صدر برہم صالح کی نظر انتخاب ان پر پڑی۔

تھکادینے والے طویل مذاکرات

عراق میں وزیر اعظم بننے کے لیے پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ناممکن نہ بھی سہی لیکن ناممکن سے صرف ایک درجہ کم لیکن انتہائی مشکل ترین کام ہے۔

پہلے تو مختلف پارلیمانی قیادتوں سے تھکادینے والے طویل مذاکرات کرنے پڑتے ہیں۔ اور سبھی پارلیمانی گروہ اپنے اپنے مطالبات اور ترجیحات پر ضمانت، حمایت و موافقت کی شرائط پر پر ہی وزیر اعظم کی حمایت کرتے ہیں۔

سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک معروف شخصیت

مصطفی ال کاظمی کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انکی ماضی کی سیاسی و صحافتی فعالیت کی وجہ سے بہت سوں سے ا نکے مراسم ویسے ہی اچھے رہے ہیں۔

قومی انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کا طاقتور عہدہ ویسے ہی انہیں پوری دنیا نہیں تو کم سے کم مشرق وسطیٰ اور پڑوسی ممالک کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک معروف شخصیت بنا ہی چکا تھا۔

اس حیثیت میں وہ امریکا و برطانیہ سمیت یورپی ممالک کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی ورکنگ ریلیشن شپ رکھتے ہوں گے۔ اسی طرح اردن، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات سمیت دیگر جی سی سی اور عرب ممالک بشمول شام اور ان سب کے علاوہ ایران کے سیکیورٹی حکام سے بھی ان کا باقاعدہ رابطہ بھی رہا ہوگا۔ یہ عام فہم (کامن سینس) کی بات ہے۔

یقینا یہی وہ وجوہات ہیں کہ جن کی بنیاد پر وہ عراق کی منقسم سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور خارجی اسٹیک ہولڈرز دونوں ہی کیلئے قابل قبول قرار پائے ہوں گے۔

شکوک و شبہات اور اعتراضات

البتہ ان کے حوالے سے شکوک و شبہات اور اعتراضات بھی رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جنوری 2020ع میں ایران کے لیفٹننٹ جنرل حاج قاسم سلیمانی کو امریکا نے بغداد ایئرپورٹ سے نکلتے ہوئے غیر قانونی حملے میں قتل کردیا، تب مصطفی ال کاظمی ہی عراق کی طاقتورقومی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ تھے۔

اس موضوع پر انہوں نے حشد الشعبی کے بعض گروہوں کے قائدین سے ملاقات کے لئے وقت مانگا۔ وہ اپنی وضاحت پیش کرنا چاہتے تھے۔

کتائب حزب اللہ

اس ضمن میں کتائب حزب اللہ نے بیان بھی جاری کیا تھا کہ مصطفی ال کاظمی نے ان سے ملاقات کی درخواست کی تھی۔  ملاقات میں ان کے مابین ایک کمیٹی بنانے پر اتفاق ہوا تھا کہ کمیٹی اس جرم سے متعلق حالات کی تحقیقات کرے۔

یعنی ا یرانی جنرل قاسم سلیمانی اورعراق کی حشد الشعبی کے سرکردہ پیراملٹری کمانڈر ابو مھدی الھندس اورانکے دیگر ساتھیوں کو امریکی مسلح افواج نے فضاء سے زمین پر میزائل فائر کرکے غیر قانونی طور پر قتل کیا، اس جرم سے متعلق تحقیقات۔ (ظاہر ہے کہ ال کاظمی کا دعویٰ ہوگا کہ اس میں اسکا کوئی کردار نہیں جبکہ حشد الشعبی کے گروہوں کا موقف ہوگا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ وہ قومی انٹیلی جنس کا سربراہ ہو مگر اسے معلوم تک نہ ہو۔ یا یہ کہ امریکا اتنا بڑا کام اس کو بتائے بغیر کرسکتا تھا!؟)۔

ہادی العامری الفتح بلاک

اس کے علاوہ ہادی العامری کے الفتح بلاک نے مصطفی کاظمی کی جانب سے کابینہ کے اراکین کے لئے بعض ناموں پر اعتراض بھی کیا تھا۔ جبکہ کتائب حزب اللہ نے الفتح سے کہا تھا کہ مصطفی کاظمی کے وزیر اعظم بننے پر ا نہیں اعتراض ہوگا۔

یادر ہے کہ نئی حکومت میں امور جوانان و کھیل کے وزیر ماضی کے مشہور فٹ بالر ہیں جن کا صدام کے بیٹے عودے سے قریبی اور گہرا تعلق رہا۔

یقینا بعد میں الفتح کے سامنے بھی مصطفی کاظمی نے اپنی پوزیشن کی وضاحت کی ہوگی۔ اور اس طرح 6مئی 2020ع کو وہ اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئے جبکہ 9اپریل 2020ع کو صدر برہم صالح نے مصطفی کاظمی کو نامزد کیا تھا۔ عراقی پارلیمنٹ کے 329اراکین میں سے 266اراکین اعتماد کے ووٹ کے لیے ہونے والے اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔

بحران کی نہیں بلکہ حل کی حکومت

نئے وزیر اعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ انکی حکومت بحران کی نہیں بلکہ حل کی حکومت ہے۔ عراق کے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے نئے وزیر اعظم یا انکی حکومت کی ترجیحات میں سیکیورٹی اور اقتصادی شعبوں میں بہتری اور کوروناوائرس وبائی مرض سے بچاؤ شامل ہیں۔ البتہ انہوں نے عراق میں قومی اتحاد پر زور دیا ہے۔

امریکی مداخلت عراق کا اولین مسئلہ

خارجہ محاذ پر امریکی مداخلت عراق کا اولین مسئلہ اور سب سے بڑی مشکل ہے۔ اقتصادی بدحالی اور نا امنی کی ایک بڑی وجہ بھی امریکا ہی ہے۔ مگر تاحال امریکا کا موضوع میڈیا ڈسکس نہیں کررہا۔

ایم بی ایس بھی نئے وزیر اعظم کے دوست

دوسرا یہ کہ سعودی ولی عہد سلطنت محمد بن سلمان بھی نئے وزیر اعظم کے دوست ہیں۔ جبکہ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق مصطفی کاظمی کے اعتماد کا ووٹ جیتنے کے بعد سب سے پہلے ایم بی ایس نے فون کیا۔ سعودی ولی عہد سلطنت نے درخواست کی ہے کہ عراقی وزیر اعظم ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی کریں۔

عراق کے حوالے سے ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ فی الحال سیاسی تعطل کا خاتمہ ہوا ہے۔ ایک باقاعدہ حکومت بن چکی ہے۔ اکتوبر 2019ع کے مظاہروں سے شروع ہونے والا بحران کسی حد تک تھم ضرور گیا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔

عراق کے عوام زیادہ عرصہ خاموش نہیں رہیں گے

عراق کے عوام کی غالب اکثریت امریکی مداخلت کی مخالف ہے۔ عراق نے امریکی فوجی انخلاء کا رسمی مطالبہ بھی پہلے سے کررکھا ہے۔ جب تک عراق کا یہ مطالبہ مانا نہیں جاتا اور نئی عراقی حکومت اس ضمن میں جب تک کامیاب نہیں ہوتی تب تک امریکا براہ راست عراق میں بھی مداخلت کرتا رہے گا اور یہاں سے ایران اور شام کو بھی ڈسٹرب کرتا رہے گا۔

نئے وزیراعظم اور نئی حکومت کی جانب سے فی الحال اس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ لیکن عراق کے عوام زیادہ عرصہ اس خاموشی پر خاموش نہیں رہیں گے۔

عراق کی نئی حکومت اور پرانے مسائل

تحریر : عین علی برائے شیعت نیوز اسپیشل

عراق میں امریکی فوجی اڈے زمیں بوس، لاشیں اسرائیل منتقل

عراقی جمہوریت کے ارتقائی سفر کامشکل مرحلہ

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں

حاج قاسم سلیمانی کی زندگی پر ایک مختصر نظر

متعلقہ مضامین

Back to top button