اہم ترین خبریںپاکستان کی اہم خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

شیعہ اسلامی اجتماعات پر پابندی نامنظور

شیعہ اسلامی اجتماعات پر پابندی نامنظور

شیعہ اسلامی اجتماعات پر پابندی نامنظور… کورونا وائرس حفاظتی اقدامات کا بہانہ بناکر سندھ حکومت کے محکمہ داخلہ نے بعض ایسے اجتماعات پر پابندی عائد کردی ہے جو انکے مطابق فرض نہیں ہیں۔ یعنی سندھ حکومت کے حکم نامے کے مطابق اس سال ماہ رمضان میں امیر المومنین مولاعلی علیہ السلام کی شہادت کی مناسبت سے عزاداری کے اجتماعات کرنا ممنوع قرار پائے ہیں۔ ساتھ ہی شبینہ کے عنوان سے ہونے والے اجتماعات پر پابندی کا تذکرہ بھی اسی حکم نامے میں شامل ہے۔

غیرفرض اجتماعات کی اجازت

بظاہر سندھ حکومت نے لفظ شبینہ اور دیگر کا تذکرہ کرکے غیر جانبداری ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس نوٹیفیکیشن کا ہدف شیعہ اسلامی اجتماعات ہی ہیں۔ کیونکہ، بقیہ اجتماعات تو ویسے ہی ہورہے ہیں۔ اور دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ شرعی لحاظ سے فرض یا واجب وہ اجتماعات بھی نہیں ہیں کہ جن کے انعقاد کی مشروط اجازت حکومت نے دے رکھی ہے۔

نماز باجماعت بھی فرض نہیں

مثال کے طور پر باجماعت نمازوں کی ادائیگی۔ شرعی لحاظ سے ہر مسلمان پر فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کے عنوان سے بعض نمازیں واجب الادا ہیں۔ رائج سنی اصطلاح میں ان نمازوں کو فرض اور شیعہ اصطلاح میں واجب کہا جاتا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ان فرض نمازوں کو باجماعت اداکرنا فرض یا واجب نہیں ہے۔

چونکہ حکومتی نوٹیفیکیشن میں یوم علی ؑ یعنی امیر المومنین مولاعلی علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے ہونے والے عزاداری کے اجتماعات پر پابندی کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ فرض یا واجب نہیں ہے۔ اس لئے جو جو عبادات فرض نہیں ہیں، انکی چند مثالیں یہاں عرض کی جارہیں ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ کہ جو فرض یا واجب دو رکعت، تین رکعت یا چار رکعت نمازیں ہیں، انکو باجماعت ادا کرنا بذات خود ایسا مستحب عمل ہے کہ جس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ مگر ان فرض نمازوں کو بھی باجماعت پڑھنا بذات خود فرض یا واجب نہیں ہے۔ فرض یا واجب وہ عبادات ہیں کہ جن کو ادا نہ کرنا گناہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ یعنی فرض یا واجب نمازوں کو دفتر یا گھر یا کسی بھی پاک مقام پر تنہا ادا کرلینے سے بھی نماز ادا ہوجاتی ہے۔ یقینا باجماعت نماز کا ثواب زیادہ ہے، اہمیت بھی زیادہ ہے مگر نماز کو باجماعت ہی پڑھنا ہے، یہ واجب نہیں ہے۔

تراویح بھی فرض نہیں

اسی طرح سنی مکتب میں ماہ رمضان میں ایک نماز کا عنوان تراویح رکھا گیا ہے۔ اس میں بھی سنی اور وہابی مکاتب میں اختلاف ہے مگر اس حقیقت پر سبھی کا اتفاق ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺکی اس فانی دنیا میں ظاہری موجودگی کے وقت اس نماز تراویح کا ایسا کوئی وجود نہیں تھا جیسا کہ آج ہے۔ دوسرا اتفاق اس بات پر ہے کہ تراویح پڑھنا بھی فرض یا واجب نہیں ہے۔

شیعہ اسلامی اجتماعات پر پابندی کیوں؟

اب اگر جو فرض یا واجب عبادات بھی باجماعت ادا کرنا فرض یا واجب نہیں ہیں جیسا کہ یومیہ نماز پنجگانہ۔ یا جو غیر فرض اور غیر واجب تراویح نماز ہے۔ اگر انکے برپا کرنے کی مشروط اجازت حکومت نے دے رکھی ہے۔ تو شیعہ اسلامی اجتماعات پر پابندی کیوں؟۔ دوسرا یہ کہ ان اجتماعات میں بھی کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے وضع کئے گئے حفاظتی اقدامات کی کھلی خلاف ورزی رپورٹ ہورہیں ہیں۔ تو بھی حکومت نے تراویح پڑھنے پر پابندی نہیں لگائی۔

اس صورتحال کا دوسرا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکومت نے اور طبی ماہرین نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے یا اسکے پھیلاؤ کوروکنے کے لئے جوحفاظتی اقدامات مشتہر کئے ہیں۔ اور عوام و خواص ہر ایک کو پابند کیا ہے کہ وہ ان پر عمل کریں۔ اور انہی حفاظتی اقدامات پر عمل کو یقینی بنانے کے لئے لاک ڈاؤن نافذ کررکھا ہے۔ کاروبار زندگی معطل کررکھا ہے۔ تو حکومت کو اور جید علمائے کرام کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ باجماعت نماز کی ادائیگی کی کچھ شرائط ہوا کرتی ہیں۔ اوران شرائط میں سب سے اہم امام اور ماموم کے مابین بہت زیادہ فاصلہ نہیں رکھا جاسکتا۔ اورخود ماموم جو ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، انکا درمیانی فاصلہ بھی کم ہوتا ہے۔

شرعی شرائط بمقابلہ حفاظتی تدابیر

شرعی شرائط برئے نماز باجماعت پر عمل کیا جائے تو کورونا وائرس سے بچنے کی حفاظتی تدابیر پر عمل ناممکن ہوجاتا ہے۔ اگر حفاظتی تدابیر پر عمل کریں تو باجماعت نماز کی شرائط مکمل نہیں ہوسکتیں۔ اور لامحالہ ایسی نماز فرادیٰ یعنی انفرادی طور پر ہی پڑھی جاسکتی ہے۔ یعنی نمازی مسجد تو جائیں مگر حفاظتی تدابیر کے ساتھ خود زیادہ فاصلے پر رہ کر نماز اداکریں۔ بعض علمائے کرام نے بلاوجہ باجماعت نماز کے لئے س حوالے سے شرعی شرائط کی خلاف ورزی کو قبول کرلیا ہے۔ اگر جماعت نماز کی شرائط کی تکمیل نہیں کرسکتے تو باجماعت نماز تو ویسے بھی نہیں ہوسکتی۔

تراویح نماز میں بھی خلاف ورزی

ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مسجد سے نمازی عقبی دروازے سے ایسے نکل رہے ہیں کہ بالکل بھی ان کے مابین کوئی فاصلہ نہیں تھا۔ لاہور میں ایک نام ور اہلحدیث مولوی کی اقتداء میں ہونے والی تراویح نماز میں بھی خلاف ورزی ہوئی۔ محض مقدمہ درج کیا گیا مگر نہ تو اس اجتماع کو روکا جارہا ہے اور نہ ہی مولوی صاحب کو پکڑا جارہا ہے۔

اب اگر بات ہو دینی مجالس یا محفلوں کی تو وہاں حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا بہت زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ دینی مجالس یا محفلوں میں زیادہ فاصلہ پر کھڑا ہوا جاسکتا ہے بیٹھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یوم شہادت امیر المومنین امام المتقین مولاعلی علیہ السلام کے موقع پر پر حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا ممکن ہے۔ وہاں بھی شرکاء صفائی، ستھرائی، اسپرے اور سوشل ڈسٹینسنگ یا ایک دوسرے کے درمیان فاصلے سے چل سکتے ہیں۔

بات صرف دینی اجتماعات کی نہیں ہے۔ احساس ایمرجنسی کیش پروگرام یا دیگر امدادلینے کے لئے عوام متعدد مقامات پر ایک دوسرے سے چپک کر کھڑے پائے جاتے ہیں۔ پاکستان بھر سے اس نوعیت کی خبریں آرہیں ہیں۔ لاک ڈاؤن کی بھی خلاف ورزیاں ہورہیں ہیں۔ بڑے بڑے سپر اسٹور پر بھی حفاظتی تدابیر پر عمل نہیں ہورہا۔

شیعہ اسلامی اجتماعات پر پابندی نامنظور

اس پورے منظر نامے کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو شیعہ اسلامی اجتماعات پر پابندی سوائے تعصب کے اور کیا ہے۔ باجماعت نماز بھی فرض نہیں، تراویح بھی فرض نہیں۔ اسکے باوجود انکی اجازت ہے۔ اسی طرح خلاف ورزیاں توباجماعت نماز اداکرنے والے بھی کررہے ہیں، سپراسٹور اور امدادی رقوم و سامان تقسیم کرنے اور صول کرنے والے بھی کررہے ہیں۔ مگر ان سب کے ہوتے ہوئے یوم علی ؑ کے اجتماعات پر پابندی ایک ظالمانہ اور متعصبانہ غیر قانونی و غیر قانونی فیصلہ ہے۔ پابندی منسوخ کی جائے۔

ایم ایس مہدی برائے شیعیت نیوزاسپیشل

حضرت اویس قرنی ؓ کے افکار کا وارث یمن

Why ban on Shia Islamic rituals while other congregations allowed?

متعلقہ مضامین

Back to top button