مقالہ جات

حالات زندگی ۔۔۔شیخ اعظم شیخ مفید قدس سرہ ۔۔

آپ وہ شخصیت ہیں کہ جن کی فتوی کی تائید امام زمانہ عجہ نے کی اور آپ کو اپنا بھائی کہہ کر پکارتے تھے ۔

شیعت نیوز: شیخ مفید وہ شخصیت ہیں جن کا جنازہ قدیم دور میں بھی 80 ہزار افراد کا ہوا تھا جس میں شیعہ کے ساتھ ساتھ سنی عام و علماء کرام شریک ہوئے تھے آپ وہ شخصیت ہیں کہ جن کی فتوی کی تائید امام زمانہ عج نے کی اور آپ کو اپنا بھائی کہہ کر پکارتے تھے ۔

تاریخ ولادت: 11 ذی القعدہ 336 یا 338ھ
آبائی شہر: بغدادتاریخ وفات 3 رمضان 412 ھ
مدفن: کاظمین، عراق

شیخ مفید قدس سرہ چوتھی و پانچویں صدی ہجری کے شیعہ امامی متکلم و فقیہ ہیں۔ نقل ہوا ہے کہ شیخ مفید نے علم اصول فقہ کی تدوین کے ساتھ فقہی اجتہاد کی راہ میں ایک جدید روش کو متعارف کرایا جو افراطی عقل گرائی اور روایات کو بغیر عقلی پیمانے پر جانچے قبول کرنے کے مقابلہ میں ایک درمیانی راہ پر مبنی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت کی بیان کردہ ایس او پی کے تحت یوم علی ؑ پرمراسم عزا منعقد ہونگے، علامہ ناظرتقوی

شیخ صدوق، ابن جنید اسکافی و ابن قولویہ ان کے برجستہ ترین اساتید، شیخ طوسی، سید مرتضی، سید رضی و نجاشی ان کے مشہور ترین شاگرد اور فقہ میں کتاب المُقنِعَہ، علم کلام میں اوائل المقالات اور شیعہ ائمہ کی سیرت پر کتاب الارشاد ان کی معروف‌ ترین تالیفات میں سے ہیں۔

وفات

سن 413 ھ میں ۲ یا ۳ رمضان جمعہ کے روز شیخ مفید 75 یا 77 سال کی عمر گزار کر اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔ شیخ طوسی کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کی وفات پر اس سے بڑا جم غفیر نہیں دیکھا۔ لوگ اعتقادی اور مذہبی تفریق کے بغیر ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور گریہ کیا۔ مؤرخین نے ان کے جنازے میں شریک ہونے والے شیعوں کی تعداد 80/000 بیان کی ہے دوسرے مذاہب کے لوگ ان کے علاوہ تھے۔ میدان "اشنان” میں ان کی نماز جنازہ سید مرتضی نے پڑھائی اور انہیں ان کے گھر کے صحن میں دفن کیا گیا۔ دو سال کے بعد ان کے جسد کو حرم کاظمین کی پائنتی کی جانب قریش کی قبروں کی طرف ابو القاسم جعفر بن محمد بن قولویہ کی سمت دفنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی جی خان میں سی ٹی ڈی کی اہم کارروائی کالعدم تنظیم داعش کے 2دہشت گرد گرفتار

✔آخر میں ایک سورہ فاتحہ کی اپیل ہے تمام مراجع عظام الخاص شیخ مفید قدس سرہ کے لیئے

تحقیق : مظہرعلی مطہری النجفی

 

حوالہ جات

نجاشی، رجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۹۹، رقم ۱۰۶۷. نجاشی، رجال، ۱۴۰۷ق، ص۴۰۲.
ابن ندیم،‌ الفہرست، ۱۳۵۰ش، ص ۱۹۷؛ طوسی، الفہرست، ۱۴۱۷ق، ص۲۳۹. شبیری، گذری بر حیات شیخ مفید، ۱۴۱۳ق، ص۸-۷.
شبیری، گذری بر حیات شیخ مفید، ۱۴۱۳ق، ص۸-۷.
شبیری، گذری بر حیات شیخ مفید، ۱۴۱۳ق، ص۸-۹.
شبیری، گذری بر حیات شیخ مفید، ۱۴۱۳ق، ص۳۷؛ شبیری،
مقدمہ تہذیب الاحکام ج1 ص22 تا 31
گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص‌۱۴۳-۱۴۴.
شبیری، گذری بر حیات شیخ مفید، ۱۴۱۳ق، ص۳۹.
طوسی، الفهرست، ۱۴۱۷ق، ص۲۳۹.
نجاشی، رجال، ۱۴۰۷ق، ص۴۰۳-۴۰۲.

متعلقہ مضامین

Back to top button