اہم ترین خبریںسعودی عربشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

سعودی عرب کا ناکام سفارتی خود کش حملہ

ناکام سفارتی خود کش حملہ

تحریر : عین علی برائے شیعیت نیوز اسپیشل

سال2019 ع سعودی عرب کے ناکام سفارتی حملوں کے ساتھ اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ ایران اور مقاومتی بلاک کے دیگر ایکٹرز کے خلاف کئی برسوں سے سعودیہ ناکام جارہا تھا۔ اور اس برس ملائیشیاء، ترکی اور قطر کے مقابلے پر بھی ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔

ذلت آمیز شکست

کہا جاتا ہے کہ ناکامی یتیم ہوا کرتی ہے۔ مگر سعودی ناکامی میں امارات ہی نہیں بلکہ پاکستان کے حکمران بھی حصے دار تھے۔ دنیا کی واحد مسلمان نیوکلیئر ریاست پاکستان اور بلحاظ آبادی سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیاء کی اطاعت بھی سعودی بادشاہت کو ذلت سے نہ بچاسکی۔

ستم ظریفی کہ اس اجتماع کے دو مرکزی کردار خود ہی دستبردار ہوگئے۔ جبکہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے شرکت کی۔ حالانکہ پانچ ملکی کوششوں میں ایران شامل ہی نہیں تھا۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کا بھی کم نقصان نہیں ہوا۔

کوالالمپور اجلاس کامیاب ہوگیا

سعودی بلاک کے غلط اقدامات نے کوالالمپور سربراہی اجلاس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ ملائیشیاء کے دارالحکومت میں 52ممالک سے ڈھائی سو مسلمان مفکرین، دانشوروں، علماء اور حکام نے شرکت کی۔ ان کے علاوہ ڈیڑھ سو مفکرین و علماء و دانشور میزبان ملک سے تھے۔

ملائیشیا، ترکی، ایران اور قطر کی سربراہی نمائندگی ہوئی۔ عالم اسلام کی خودمختاری میں ترقی کے کردار پر تبادلہ خیال ہوا۔ یہاں سے عالم اسلام کے مفاد میں کوئی متفقہ راہ حل تجویز ہونے کی تاکید کی گئی۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دباؤ ناکام سفارتی خود کش حملہ ہی ثابت ہوا۔ سعودی و اماراتی حکمرانوں نے خود اپنا امیج خراب کردیا۔

 ناکام سفارتی خود کش حملہ

پاکستان، ملائیشیاء، انڈونیشیاء جیسے ممالک ایک معتدل و متوازن اپروچ رکھتے آئے ہیں۔ اس لئے منفی طرز عمل سے سعودی اماراتی حیثیت، عرب اسلامی دنیا کی صف بندی میں کمزور ہوئی ہے۔ کیونکہ اس مرتبہ انہوں نے جن ممالک کے خلاف اقدامات کئے ہیں، وہ ایران کی مانند نہیں ہیں۔

ملائیشیاء، عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا اہم ایشیائی کھلاڑی ہے۔ انڈونیشیاء بھی امریکی اتحادی ہے تو قطر بھی۔ ترکی تو باضابطہ طور پر امریکی مغربی اتحاد نیٹو کا رکن ملک ہے۔

گوکہ قطر سے بھی سعودی اماراتی حکمرانوں نے تعلقات خراب کررکھے ہیں۔ اور جمال خاشقچی کے قتل پر ترکی سے بھی سعودی تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ ترکی اور قطر کی جانب سے اخوان المسلمین مصر کی حمایت بھی سعودی بادشاہت کو پسند نہیں ہے۔

لیکن ان تمام تر مسائل و مشکلات کے باجود قطر کو جی سی سی سربراہی اجلاس میں ریاض مدعو کیا گیا۔ ترکی کے ساتھ بھی سعودی تعلقات منقطع نہیں ہیں۔ یعنی ایران کی نسبت ان ممالک کے سعودیہ و امارات کے ساتھ اور مغربی بلاک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت یکسر مختلف ہے۔

سعودیہ کسی حال میں خوش نہیں

پاکستان جیسے ملکوں میں سنی شیعہ ایشو کا بھی بہانہ بنایا جاتا ہے۔ مگر، فرقے کے لحاظ سے بھی بات کی جائے تو قطر بھی سعودی و اماراتی سلفی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر بات کی جائے سنی شیعہ کی تب بھی پاکستان، ترکی، ملائیشیاء اور انڈونیشیاء بھی سنی ملک ہی ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ سعودی عرب تو سلفی و سنی ملکوں سے بھی راضی نہیں۔

زلفی بخاری بھی زد پر

اور اب سوشل میڈیا پر خبریں یہ ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کو شاہی دربار سے حکم ملا کہ وہ اپنے معاون خصوصی زلفی بخاری کو ساتھ نہ لایا کریں کیونکہ وہ شیعہ ہے۔ حالانکہ زلفی بخاری تو خود امریکی صدر ٹرمپ کے دامادجیرڈ کشنر کا دوست ہے جبکہ جیرڈ کشنر تو سعودی اور اماراتی ولی عہد شہزادوں کا بھی دوست ہے۔

پاکستان کی سنگین سفارتی غلطی

سعودی اماراتی ڈکٹیشن مان کر پاکستان کی موجودہ حکومت نے خارجہ پالیسی کے محاذ پر انتہائی سنگین سفارتی غلطی کی۔ انصافین حکومت نے پاکستان کی ساکھ داؤ پر لگادی۔ کشمیر کے ایشو پر سعودیہ و امارات بھارت کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں جبکہ ترکی، ملائیشیاء اور ایران کا موقف کشمیریوں کے حق میں ہے۔ اگر سعودیہ و امارات کو راضی کرنے کے چکر میں کوالالمپور اجلاس کے شریک ممالک پاکستان سے ناراض ہوگئے تو کیا ہوگا، کیا یہ سوچا ہے!؟

 ناکام سفارتی خود کش حملہ

ملائیشیاء، ترکی، ایران اور قطر۔ اگر صرف ان چار ممالک کے ساتھ ہی اگر ڈھنگ سے تجارت کرلی جائے تو پاکستان کو سعودیہ و امارات سے ادھار لینے کی نوبت نہیں آئے گی۔ کوالالمپور سمٹ بلیسنگ ان ڈسگائز ثابت ہوئی۔

اس کانفرنس کو سعودیہ اور امارات کے ناکام سفارتی خود کش حملوں نے کامیاب کردیا ورنہ یہ ایک نمائشی روایتی کانفرنس کی طرح بھلادی جاتی مگر اب یہ تاریخ کے ریکارڈ پر یادگار ہوگئی۔

تحریر : عین علی برائے شیعیت نیوز اسپیشل

شیعیت نیوز اسپیشل

Shiite News Special

متعلقہ مضامین

Back to top button