اہم ترین خبریںسعودی عرب

جمال خاشقجی قتل کیس، سعودی عدالت نےقاتل محمد بن سلمان کو پھانسی کے پھندے سے پچالیا

اس کیس میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا اور اصل قاتل یعنیٰ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو پھانسی کے پھندے سےبچا لیا ہے۔

شیعت نیوز: جمال خاشقجی قتل کیس، سعودی عدالت نے اصل قاتل محمد بن سلمان کو پھانسی کے پھندے سے پچالیا، پانچ قاتلوں کو سزائے موت اور تین کو 24 سال قید کی سزا سنادی گئی۔

پبلک پراسیکیوٹر نے اپنے بیان میں کہا کہ سابق شاہی مشیراورسعودی ولی عہد کے دست راست سعود القہتانی کے خلاف بھی اس قتل کیس میں تحقیقات کی گئیں تاہم ان پر جرم ثابت نہیں ہوا اور انہیں رہا کر دیا گیا۔ اپنے قتل سے قبل جمال خاشقجی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھا کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: آلِ سعود کے ولی عہد کا مسلم دشمنی میں بڑا اقدام، مسلم مخالف اقدامات کی حمایت

عرب نیوز کے مطابق عدالت میں خاشقجی کے قتل کے وقت سعودی قونصل جنرل محمد العتيبی کی جائے وقوعہ پر موجودگی بھی ثابت نہیں ہوئی۔ خاشقجی قتل کیس میں عدالت کی نو سماعتیں ہوئیں اور دسویں سماعت میں فیصلہ جاری کیا گیا۔

فیصلوں کے اجرا کے دوران خاشقجی کے خاندان کے افراد اور ترکی کے سرکاری نمائندے عدالت میں موجود تھے۔استغاثہ نے مزید کہا کہ سابق ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد العسیری کو ناکافی شواہد کی بنا پر بری کیا گیا ہے۔

سعودی وزارت خارجہ کے ٹویٹ کے مطابق اس کیس میں 31 افراد نامزد تھے جن میں سے 21 گرفتار کیے گئے جب کہ دس کو شامل تفتیش کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کا رہنما، جعلی امام مسجد بچی سے زیادتی کی کوشش میں گرفتار

جمال خاشقجی سعودی شاہی حکومت کے بہت بڑے ناقد تصورکیئے جاتے تھے ۔ وہ بارہا سعودی شاہی حکومت کی پالیسیوں پر ببانگ دہل تنقید کرتے دیکھائی دیتے تھے ۔سعودی نژاد صحافی اور امریکی شہری جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے۔ تاہم اس کی اہلیہ نے الزام عائد کیا تھاکہ ان کے شوہر کو اندر موجود سعودی انٹیلیجنس اہلکاروں نے اغواءکرکے قتل کردیا ہے۔

بعد ازاں سوشل میڈیا پر مختلف تصاویر ، ویڈیوز اور خبریں نشر ہوئی تھیں جن میں جمال خاشقجی کے سعودی سفارت خانے میں داخلے کے مناظر ، ا ن پر تشدد اور تیز دھار خودکار آلہ سے ان کی لاش کے ٹکڑے کرنے نے مبینہ مناظر شامل تھے ،بعد غیر ملکی زرائع ابلاغ نے اس قتل میں براہ راست سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مہاتیر محمد بھی سنگین عالمی پابندیوں کے باوجود ایران کی لازوال ترقی وپیش رفت کی تعریف کیئے بغیر نا رہ سکے

جمال خاشقجی کے قتل پرمختلف ممالک کا رد عمل شدید رہا۔ متعدد مغربی ممالک نے اس حوالے سے سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کیاتھا اور عالمی برادری کی جانب سے محمد بن سلمان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں اس بہیمانہ قتل اور سعودی شاہی حکومت کے خلاف بھر پور مظاہرے کیئے گئے۔

سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق شاہ سلمان نے واقعے پر دو سینیئر اہلکاروں کو برطرف کیا تھا جن میں سعودی شاہی عدالت کے مشیراور محمدبن سلمان کے دست راست سعود القہتانی اور ڈپٹی انٹیلیجنس چیف احمد انصاری شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کوالالمپور کانفرنس خودمختار اسلامی دنیا کے قیام کے حوالے سے سنگ میل ثابت ہوگی

واضح رہے کہ سعود القہتانی پرجرم ثابت نا ہونے پر سعودی عدالت نے رہا کردیا ہے ،جس سے ثابت ہوتا ہےکہ سعودی شاہی عدالت نے اس کیس میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا اور اصل قاتل یعنیٰ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو پھانسی کے پھندے سےبچا لیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button