اہم ترین خبریںپاکستان

معاشرتی اصلاح، حکومت، سول سوسائٹی اور محراب و منبر کی بنیادی ذمہ داری ہے،علامہ ساجدنقوی

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور سول سوسائٹی معاشرے کی بہتری کےلئے کام کرتی ہیں مگر افسوس حکومتوں کی جانب سے معاشرے کی فکری اصلاح کی بجائے فکری انتشار کو بڑھاوا اپنے اقتدار کی خاطر دیاگیا

شیعت نیوز: شیعہ علماءکونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں کہ انسانی و اخلاقی اقدار کی تباہی انتہائی تشویشناک ہے، حالات کی ناہمواری اور تربیت کے فقدان کی وجہ سے فکری یکسوئی نہ رہی اسی بنا ءپر فکری انتشار کے سبب پی آئی سی اور اسلامی یونیورسٹی جیسے واقعات رونما ہورہے ہیں، حکومت، سول سوسائٹی اور محراب و منبر نے اپنی بنیادی ذمہ داری کی بجائے غیر ضروری عوامل پر توجہ مرکوز کرلی، اب بھی وقت ہے آنیوالی نسلوں کو بڑی تباہی سے بچانے کےلئے سنجیدہ فکر شخصیات و ارباب اختیار عملی اقدامات اٹھائیں۔ سیاسی، انتظامی یا معاشی اصلاحات سے پہلے معاشرتی اصلاحات لائی جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: شہدائے اے پی ایس کی 5ویں برسی ، معصوم بچوں کا قاتل آج بھی سرکاری مہمان

ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور پی آئی سی اور اسلامی یونیورسٹی میں ہونیوالے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا ۔ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ انسانی و اخلاقی اقدار کی تباہی انتہائی تشویشناک ہے، قرآنی تعلیمات ہیں کہ حکمرانوں پر اچھائی پھیلانے اور برائی مٹانے کی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، قرآن پاک کی تعلیمات میں بھی ہے کہ معاشرے میں ایسے گروہ ہونے چاہئیں جو اچھائی کی تلقین کریں اور برائی کو روکیں ، افسوس معاشرے میں اچھائی کا درس دینے والے اور برائی کا تدراک کرنیوالے خود گومگوں کیفیت کا شکار ہوئے جس کی وجہ سے معاشرہ فکری انتشار کی طرف بڑھتا چلاگیا اور آ ج اس کے نتائج پی آئی سی حملے اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ہونیوالے واقعات کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ حکومت جس کی بنیادی ذمہ داری معاشرے کی اصلاح کی تھی اس کی توجہ اس جانب سے مکمل طور پر اٹھ گئی اور فکری انتشار کے خاتمے کی بجائے ایسے اسباب مہیا کردیئے گئے جس سے معاشرہ بگاڑکی جانب گامزن ہوگیا اور اس کے تدارک کی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو اینٹی سامراج بلاک کو مضبوط کرنا چاہئے،علامہ مقصودڈومکی

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور سول سوسائٹی معاشرے کی بہتری کےلئے کام کرتی ہیں مگر افسوس حکومتوں کی جانب سے معاشرے کی فکری اصلاح کی بجائے فکری انتشار کو بڑھاوا اپنے اقتدار کی خاطر دیاگیا جبکہ سول سوسائٹی خود مختلف الجھنوں کا شکار ہوکر تفریق کا شکار ہوگئی جس کی وجہ سے معاشرے میں اصلاح کا سلسلہ عملاً رک گیا، سیاسی، انتظامی، معاشی معاملات پر دن رات غور کیا جاتا رہا مگر معاشرے کی اساس فکری اصلاح جو اولین ترجیح ہونا چا ہیئے تھی جس کی بنیاد پر معاشرہ مہذب اور ترقی یافتہ بنتاہے اس کی جانب توجہ مبذول نہیں کی گئی، محراب و منبر کا بنیادی کردار بھی معاشرتی اصلاح کا تھا لیکن وہ بھی بنیادی کام کی بجائے غیر ضروری عوامل کی جانب متوجہ ہوگیا جس کے اثرات آج بگاڑ کی صورت میں سامنے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شہدائے آرمی پبلک اسکول کو بھول نہیں سکتے، بطور قوم دہشتگردی کو شکست دی ہے

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ منتشر معاشروں میں جتنی مرضی سیاسی، انتظامی یا معاشی طور پر اصلاحات لائی جائیں جب تک فکری انتشار ختم نہ کیا جائے معاشرہ مستحکم نہیں ہوسکتا، معاشرتی بگاڑ کی وجہ سے معیشت پر جہاں برے اثرات مرتب ہوتے ہیں وہیں سیاسی عدم استحکام بھی بڑھتا ہے، اب بھی وقت ہے سنجیدہ شخصیات اور ارباب اختیار اس جانب توجہ کریں اور معاشرے کی اصلاح کرتے ہوئے نوجوان نسل کو بڑھتے ہوئے فکری انتشار سے نہ صرف آگاہ کریں بلکہ اس کے تدارک کےلئے عملی اقدامات بھی اٹھائیں تاکہ مستقبل میں آنیوالی نسل کو ایک بڑی تباہی سے بچایا جاسکے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button