مقالہ جات

بَرْہَنَہ پا یمنی سعودی معیشت کی شہ رگ پر

جس نے الزام لگایا وہ ثبوت نہ دے سکا۔ تقریبا ویسے ہی جیسے فجیرہ حملے کے بعد توپوں کا رخ ایران کی طرف ہوا لیکن آج تک کوئی ثبوت نہ دے سکا کہ فجیرہ کی بندر گاہ پر حملہ کس نے کیا تھا؟

شیعت نیوز: چار دن گزرنے کے باوجود سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے کا معمہ حل نہ ہو سکا۔ ایران پر الزام لگا تو کبھی عراق کی سرزمین استعمال ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ سمندری حدود سے میزائل فائر ہونے کی بات کی گئی تو کبھی سعودیہ کے اندر سے حملے کا احتمال دیا گیا۔ حملے کی اہمیت کے پیش نظر فرانس، جاپان، امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے اپنے تئیں تحقیقات کا اعلان کیا لیکن آج چار دن گزرنے کے باوجود اندازوں اور احتمالات سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔

جس نے الزام لگایا وہ ثبوت نہ دے سکا۔ تقریبا ویسے ہی جیسے فجیرہ حملے کے بعد توپوں کا رخ ایران کی طرف ہوا لیکن آج تک کوئی ثبوت نہ دے سکا کہ فجیرہ کی بندر گاہ پر حملہ کس نے کیا تھا؟۔ فجیرہ حملے کے بعد امارات نے ایک سمجھداری کا مظاہرہ یہ کیا تھا کہ مسئلے کی مزید کھینچا تانی اور عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے راتوں رات تہران جاکر اپنے معاملات کسی حد تک سیٹ کرلیے تھے۔ ظاہر ہے شیشے کا گھر بنا کر ہمسایوں سے ٹکر مول نہیں لی جاسکتی۔ لیکن سعودی تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے بعد کیا سعودیہ ایسی کسی سمجھداری کا مظاہرہ کرسکے گا جس کے بعد جہاں ایک طرف خطے میں کشیدگی کم ہو تو دوسری طرف عالمی استکباری طاقتوں کی خطے میں مداخلت کو محدود کیا جاسکے؟ میرا خیال ہے فی الحال ایسا امکان کم ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ دیکھیں تو ایسے لگتا ہے جیسے اگلے ہی لمحے ایران پر حملہ ہونے والا ہے البتہ اس میں ذرائع ابلاغ سے زیادہ امریکی حکام کا قصور ہے جنہوں نے سعودی تنصیبات پر حملے کے فورا بعد "ہم تیار اور نشانہ بند ہیں صرف سعودی اشارے کا انتظار ہے” جیسی بڑھکوں سے ماحول گرم کیا اگرچہ امریکی حکام کی جانب سے بڑھکیں مارنے کا یہ پہلا واقعہ تھا نہ آخری۔ ابھی حال ہی میں جب ایرانیوں نے امریکی ڈرون مار گرایا تھا تو امریکی جنگی بحری بیڑہ امریکہ سے خلیج فارس کی جانب چل پڑا تھا لیکن خلیج تک بیڑہ پہنچا نہ جنگی جہاز۔

یہ بھی پڑھیں: آرمکو کو اب آرام نہیں ملے گا

شاہ سلمان کے بیٹے کے پاس کیا آپشن ہیں؟۔ یمن پر حملوں میں مزید تیزی، ایرانی تنصیبات پر سائبر حملے، سیاسی فورمز پر ایران مخالف قراردادیں یا کھلی جنگ؟۔ یہاں شاہ سلمان کے بڑے بیٹے کا بڑا امتحان ہے۔ امریکہ بھتہ لئے بغیر تھپکی کے علاوہ کوئی مدد نہیں کرے گا۔ سعودیہ کی معیشت ایک طرف امریکی بھتہ تو دوسری طرف یمن جنگ کا خرچ اب شاید اکھٹا نہ اٹھا سکے۔ کسی انتہائی قدم کے بعد ہونے والے نقصان کو کون برداشت کرے گا؟۔ یہ طے ہونا بھی ابھی باقی ہے۔

عدم تحفظ کا احساس جہاں سعودی معیشت کو متاثر کرے گا وہیں سعودی شاہی خاندان کے اندر اختلافات کو مزید گہرا کر دے گا۔ شاہی خاندان کے بڑے کب تک جوان شہزادے کی غلط پالیسیوں پر خاموش رہیں گے؟۔ شاہ سلمان کا بیٹا کب تک دوام لائے گا؟۔

یمنی مزاحمت کے بقول حملہ پہلا تھا نہ آخری اگرچہ اتنی بڑی تباہی پہلی دفعہ ہوئی ہے۔ ان کے بقول مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کے علاؤہ سعودی خاک پر کہیں بھی کسی بھی ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یمن پر مسلط سعودی جنگ کے بدلے میں 91 ہزار یمنی شہری شہید اور 85 ہزار بھوک سے جان اپنے خالق کو سپرد کر چکے ہیں۔ اس بدترین سعودی ظلم کے بعد یمنی مزاحمت کی جانب سے کسی بھی سطح اور کسی بھی نوعیت کے جواب کا جواز بھی ہے اور ضرورت بھی۔ ظلم ہاتھ باندھنے سے نہیں ہاتھ اٹھانے سے رکتا ہے اور یمنیوں نے شاید اب ہاتھ اٹھا لیے ہیں اور مظلوم کا ہاتھ اٹھ جائے تو ظالم کو عبرت کا نشان بنائے بغیر نہیں رکتا۔

یہ بھی پڑھیں: انصاراللہ کا ایسا حملہ کے سعودی حکمرانوں سمیت امریکہ ودیگراتحادی ممالک کی نیندیں حرام

عسکری لحاظ سے سعودیہ دنیا کا چوتھا بڑا اسلحے کا خریدار ہے جبکہ ایران دنیا کی چوتھی بڑی بحری طاقت ہے۔ سعودیہ اور ایران عسکری طاقت کے موازنے میں ممکن ہے مساوی ہوں یا کسی شعبے میں ایران برتر تو کسی میں سعودیہ کو برتری حاصل ہو لیکن عسکری لحاظ سے طاقتور ہونا ایک چیز ہے تو اس طاقت کے استعمال کے قابل ہونا دوسری اور بالکل مختلف چیز ہے۔ جس ملک کی معیشت کا 90 فیصد انحصار تیل پر ہو وہ تیل کی تقریبا تمام تنصیبات اور بندرگاہوں کے دشمن کی زد میں ہونے کے باوجود ایک طاقتور دشمن کے ساتھ جنگ کیسے لڑ سکتا ہے؟

ایران نے ان گزشتہ چالیس سال میں جہاں خطے میں اتحادی بنائے ہیں وہیں مقامی دفاعی صنعت پر بھی توجہ دی ہے اور آج میزائل، ڈرون اور جنگی آبدوزوں کی ٹیکنالوجی میں ایران خود کفیل ہے۔ نہ فقط خود بلکہ اپنے اتحادیوں کو بھی یہ ٹیکنالوجی منتقل کر رہا ہے۔ ایرانیوں نے غیر روایتی جنگوں کا نہ فقط خود تجربہ حاصل کیا بلکہ اپنے اتحادیوں کو بھی جنگی مہارت سکھائی ہے۔ ایران خطے کی اقوام کی مشکلات میں ان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ اسی لیے آج کبھی مشرق وسطی کے اِس کونے سے تو کبھی اُس کونے سے ایرانی رہنما کا نام لیکر "ما ترکتک یا قائد” کی صدائیں آتی ہیں۔ خلیج میں کسی بھی ممکنہ جنگ میں ان صداؤں کا مقابلہ کون کیسے کرے گا؟۔

دفاع مضبوط کرنے کے حوالے سے سعودیہ نے سارا زور اسلحہ کی خریداری پر رکھا اور سعودی سٹور خریدے گئے اسلحے سے بھرے پڑے ہیں لیکن کہتے ہیں وہ سب دوسرے اور تیسرے درجے کا اسلحہ ہے۔ جنگ کا کوئی بڑا تجربہ ہے نہ فوجی مہارت البتہ کرائے کے فوجیوں کی منڈیوں تک رسائی رکھتے ہیں لیکن جنگیں کرائے کے فوجی کب جیت کر دیتے ہیں؟۔

اگر ایسا ہوتا تو یمن جنگ کا اب تک فیصلہ سعودیہ کے حق میں ہوچکا ہوتا۔اپنی جان، مال، سرزمین، عزت اور ناموس کے لیے، خالی ہاتھ، ننگے پاؤں اور بھوکے پیٹ لڑنے والے مجاہدین کو جب ساری دنیا کچلنے پر متفق تھی اس وقت صرف ایران ان کی مدد کو آیا تو آج اگر ایران پر کوئی مشکل وقت آن پڑا تو یہ ابابیلی لشکر ایران کے ساتھ کیونکر نہ کھڑے ہوں گے؟۔ تو ایسے میں عرب شہزادوں کا کونسا لشکر ان کا راستہ روکے گا؟۔درست حساب کتاب کریں تو سعودیہ خطے میں کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن اگر حساب کتاب عرب شہزادوں کے امریکی مُنشیوں نے کیا تو شاید کوئی ہلکی پھلکی آتش بازی ہو بھی جائے لیکن پھر اسے روکے گا کون اور کس قیمت پر؟ اس کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔

تحریر۔۔۔ڈاکٹر سیدابنِ حسن

متعلقہ مضامین

Back to top button