اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشل

عزاداری امام حسینؑ میں پاکستان کا منفرد مقام

شیعت نیوز اسپیشل / تحریر : غلام حسین |  امام حسینؑ اور انکے جاں نثار کربلائی ساتھیوں یعنی شہدائے کربلا کے عاشق ہر سال ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ کربلا، نجف، کاظمین، سامرہ، مشہد، دمشق، مدینہ سمیت جہاں بھی اہلبیت علیہم السلام، اما م زادگان یا انکے باوفا اصحاب کی یادگار موجود ہیں، وہاں وہاں شمع حسینی کے پروانے اوقیانوس کی مانند موجزن نظر آتے ہیں۔ کہاں وہ حرمین مطھر، وہ مقدس مقامات اور کہاں ہماری یہ سرزمین، اس حوالے سے کوئی موازنہ بنتا نہیں مگر پھر بھی پاکستان دنیا کے ان اکا دکا منفرد و یگانہ ممالک کی صف اول میں ضرور شامل ہے کہ جہاں سال میں چار نہیں بلکہ پانچ موسم ہوتے ہیں۔ اور یہ پانچواں موسم ہوتا ہے عزاداری کا۔ پاکستان عزاداری کے حوالے سے دنیا میں ایک منفرد و ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ یہ تحریر چند پہلوؤں تک محدود رہے گی۔

سادات فاطمی کا مقدس سبز رنگ صرف پاکستان کے قومی پرچم پر نہیں بلکہ یہ پاکستانیوں کے قومی مزاج میں ہے، یہ ایک عام پاکستانی کے ڈی این اے میں ہے۔ پاکستان کوئی عام ملک نہیں ہے بلکہ یہ کئی حوالوں سے خاص ہے۔ پاکستان کا اعلیٰ ترین قومی اعزاز نشان حیدر ہے جو اس پاک سرزمین کے دفاع کے لئے جام شہادت نوش کرنے والے ایسے شہید کو بعد از شہادت ملتا ہے کہ جب وہ اس فانی دنیا میں آخری لمحات میں شیر خدا حیدر کرار کا سچا مرید اورپیرو بن کر دشمن کو للکار کر پچھاڑ چکا ہوتا ہے،،دشمن کی سانسیں اکھاڑ چکا ہوتا ہے۔ اور اسی کیفیت کو نصرت فتح علی خان نے ایک قوالی میں یوں بیان کیا تھا۔۔۔چڑھ گیا مینوں حیدری رنگ!!! یعنی اس حیدری رنگ کے بعد نشان حیدر ملتا ہے۔

مختلف ثقافتوں کو امام حسینؑ کی محبت، انکی عزاداری نے ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ یہی کربلا والوں کا معجزہ ہے۔ مجلس امام حسینؑ کا فرش عزا واحد جگہ ہے جہاں طبقاتی تقسیم کا دور دور تک کوئی وجود نہیں۔ امیر فقیر سبھی نے اسی ایک دری پر ایک ہی فرش عزا پر ہی تشریف رکھنا ہے۔

بات ہورہی تھی عزاداری کی، حسینیت کی اور جانکلی حیدری رنگ تک! کیا کیا جائے، پاکستانیوں کا مزاج یہی ہے کہ وہ عشق امیر المومنین ؑ کی دولت سے سرشار ہیں، ولایت جناب امیر ؑ انکے خون میں ہے۔یہاں معاشرے میں اہل بیت نبوۃ کو خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ بزرگان دین کے جو مزارات ہیں، اگر یہ ایران یا عراق میں ہوتے تو امام زادگان کہلاتے۔ باوجود این کہ یہاں انہیں اولیائے خدا،،یا،،بزرگان دین کہا جاتا ہے، مگر یہ مزارات مقدسہ پاکستان میں بھی اسی طرح مرجع خلائق ہیں جیسے ایران یا عراق میں۔ اور انہی بزرگان دین یا اولیائے خدا نے، عرفاء نے، شعراء نے اس معاشرے میں اہل بیت علیہم السلام سے مودت، محبت اور عقیدت کو راسخ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پاکستان میں بچے، نوجوان اور جوان جو کچھ محرم میں اپنے ارد گرد ملاحظہ کررہے ہیں، یہ تسلسل ہے ایک تاریخ کا۔ عربی، فارسی پاکستان کی زبان نہیں ہوا کرتی تھی۔ لیکن پاکستان میں وہ علاقے شامل ہیں جنہوں نے عشق علی ؑ میں میثمی کردار ضرور ادا کیا۔ یہاں حضرت عبداللہ شاہ غازی (کراچی) سے لے کر شاہ عبداللطیف کاظمی بری سرکار (اسلام آباد) تک، لعل شھباز قلندر (سیوھن شریف) سے شاہ عبداللطیف بھٹائی (بھٹ شاہ) تک جو بزرگان
مدفون ہیں، ہر ایک نے معاشرے میں گہرا اثر چھوڑا ہے۔

حسین ؑ آکاش کا رشی ہے
حسین ؑ دھرتی کی آتما ہے

میر سید علی ھمدانی جیسے بزرگ بھی یہاں سے گذرے ہیں اور ان کے نظریات سے علامہ اقبال بھی بے حد متاثرہوئے۔ شہدائے کربلا کی یاد میں شاہ عبداللطیف بھٹائی نے مرثیہ بعنوان سر کیڈارو تخلیق کیا۔ انکی رحلت 1752ع میں ہوئی تھی۔جبکہ انکے اجداد میں شاہ عبدالکریم (بھلڑی وارو) نے بھی عارفانہ کلام لکھا۔ سید ثابت علی شاہ کی رحلت 1810ع میں ہوئی، وہ بھی سندھی زبان کے معروف مرثیہ گو شاعر تھے۔ لعل شہباز قلندر فارسی میں مدح اہلبیت ؑ کیا کرتے تھے۔ مکلی کے تاریخی قبرستان میں بھی اہل بیت نبوۃ کے متعدد پیروکار مدفون ہیں جنہوں نے عزاداری کی شمع کو روشن رکھا۔

قیام پاکستان کے بعد بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے بھی پاکستانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے۔عزاداری میں اردو اور گجراتی ثقافت، یعنی دو نئے عناصر بھی شامل ہوگئے۔ اور اس وقت دری فارسی زبان ہزارہ، گلگتی، بلتی و پرکستانی، پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، اردو، گجراتی خوجہ و کشمیری، سمیت مختلف زبانوں میں شہدائے کربلا کی یاد میں مجالس عزا اور نوحہ و مرثیہ خوانی کا انعقاد ہورہا ہے۔ یہ تنوع ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ مختلف ثقافتوں کو امام حسینؑ  کی محبت، انکی عزاداری نے ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ یہی کربلا والوں کا معجزہ ہے۔ مجلس امام حسینؑ کا فرش عزا واحد جگہ ہے جہاں طبقاتی تقسیم کا دور دور تک کوئی وجود نہیں۔ امیر فقیر سبھی نے اسی ایک دری پر ایک ہی فرش عزا پر ہی تشریف رکھنا ہے۔ یعنی امام حسینؑ اور دیگر شہدائے کربلا ہر لحاظ سے انسانیت کے دلوں کو جوڑنے اور نفرتوں اور عصبیتوں کے خاتمے کی آج بھی زندہ علامت ہیں۔

عام انسان عزاداروں کو محترم سمجھتا ہے۔ انکی خدمت کے لئے حاضر رہتا ہے۔ یہ انتہائی اہم پہلو ہے کہ عزاداری میں یہ چیزیں تکفیریت کے منفی اور جھوٹے پروپیگنڈا کا کرارا جواب ہوتا
ہے، یعنی عزاداری تکفیریت کے تابوت میں آخری کیل کی مانند اثر دکھاتی ہے
،،

یہ حقیقت ہے کہ جس طرح شیعہ مسلمان عزاداری کو برپا کرتے ہیں، اس کی نظیر لانا ممکن نہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ امام حسینؑ اور دیگر شہدائے کربلا سے عقیدت میں غیر شیعہ بھی پیش پیش ہیں۔ حتیٰ کہ کافی جگہوں پر غیر مسلم بھی عشرہ محرم الحرام میں امام بارگاہوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ نذر نیاز بھی کرتے ہیں۔جبکہ غیر شیعہ آبادیوں میں بھی شب عاشور نیاز حلیم کی تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں۔ نوجوان حلیم کی دیگ میں گھوٹا لگاکر پوری رات حلیم کی نیاز تیار کرتے ہیں اور یوم عاشور اسکو عزاداروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پانی اور شربت کی سبیلیں تو جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ یہ سب کچھ یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ عام انسان عزاداروں کو محترم سمجھتا ہے۔ انکی خدمت کے لئے حاضر رہتا ہے۔ یہ انتہائی اہم پہلو ہے۔ عزاداری، یہ چیزیں تکفیریت کے منفی اور جھوٹے پروپیگنڈا کا کرارا جواب
ہیں، یعنی عزاداری تکفیریت کے تابوت میں آخری کیل کی مانند اثر دکھاتی ہے
،،،،
کیونکہ

حسین ؑ دل ہے، حسین ؑ جاں ہے
حسین ؑ قرآن کی زباں ہے
حسین ؑ عرفاں کی سلطنت ہے
حسین ؑ اسرار کا جہاں ہے
حسین ؑ آکاش کا رشی ہے
حسین ؑ دھرتی کی آتما ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button