مقالہ جات

وزیر اعظم کا دورہ امریکہ اور سوشل میڈیا

بھائیوں، بزرگوں! لازمی نہیں کہ ہر کوئی آپ کی طرح سوچے اور سمجھے، آپ کا نظریہ اپنائے۔ معاشرے کے عموامی اقدار اور ایک دوسرے کے مقدسات کو پائمال کئے بغیر کوئی بھی آپ سے اختلاف رکھ سکتا ہے

شیعت نیوز: سوشل میڈیا پر داخلی و خارجی سیاست پر کی جانے والی کسی بھی پوسٹ پر آپ کو منفی رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پوسٹ پاکستان سے متعلق ہو تو بھی یقینا کسی نہ کسی ادارے یا پارٹی کو اسکا کریڈٹ جارہا ہوتا ہے تو کسی کی مذمت ہورہی ہورہی ہوتی ہے، جیسے ہی کسی کو کریڈٹ جائے گا اسکے چاہنے والوں کے کمنٹس میں آپ کو سراہا جائے گا اور اسکے مخالفین آپ کی جانب تیروں کی برسات شروع کردیں گے۔

کسی کی مذمت ہو تو مخالف پارٹی کا بنا کر وہی کام کیا جانے لگے گا۔ خبر #پاکستان سے متعلق نہ ہو اور کسی کی مدح میں ہو تو کہا جائے گا وہیں چلے جاو پاکستان میں کیوں ہو اور اگر کسی مذمت میں ہو تو بیگانے کی شادی میں عبد اللہ دیوانا، جب آپ کا تعلق ہی نہیں تو پھر کس بات کی خوشی یا غم۔۔۔۔

ہمارے معاشرے میں خاص حلقے خصوصا مذہبی حلقات اپنے تعصب کی وجہ سے بدنام ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو خود کو روشن فکر ترین گروہ سمجھنے والے افراد یا وہ افراد جو ہر چیز کا ذمہ دار مذہب، مولوی، مشرق زمین کو گردانتے ہیں آپ کو ایسے رویہ سے سرشار ملیں گے کہ سر شرم سے جھک جائے۔ بندہ کسی اختلافی موضوع پر ان سے بحث کرکے دیکھ لے تو اندازہ ہو جائے اخلاق اور روشن فکری میں کتنا پانی میں ہیں۔

یہ خبر بھی لازمی پڑھیں: شیعہ مکتب کے بارے میں عمران خان کا امریکہ میں ایسا بیان کہ دنیا حیران رہ گئی

وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان صاحب کے دورہ امریکہ پر بھی اسی کیفیت کا سامنا رہا، مدح کی کوشش کی گئی تو آپ بنو امیہ کے حامی، اندھے، حالات سے بے خبر اور اگر مذمت کی جائے تو آپ جیالے یا پٹواری، کہیں صرف طنز و مزاح پر ہی جہاں نہ مذمت تھی نہ مدح اچھے خاصے دکھنے والے افراد سے ایسے ایسے جملے سننے کو ملے کہ انسان پریشان ہوجائے کہ کس گناہ عظیم کا مرتکب ہوگیا ہے اور اس گناہ کا کفارہ یکجا دینا ہوگا یا ساری زندگی قسطوں کی صورت میں۔

کوشش کی جاتی ہے کہ ایسی بات نہ کی جائے کہ جس سے لوگوں کے مقدسات کی توہین ہو، عموما یہ پہلو ملک، لسان، قوم اور مذہبی شخصیات، علامات، شعائر اور رہبران سے مخصوص سمجھا جاتا ہے چاہے کسی بھی مکتب و مذہب کے ہوں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں مقدسات کا دائرہ بہت وسیع ہے (ہر وہ چیز جو میری مورد پسند ہو)۔

بھائیوں، بزرگوں! لازمی نہیں کہ ہر کوئی آپ کی طرح سوچے اور سمجھے، آپ کا نظریہ اپنائے۔ معاشرے کے عموامی اقدار اور ایک دوسرے کے مقدسات کو پائمال کئے بغیر کوئی بھی آپ سے اختلاف رکھ سکتا ہے۔ آپ بھی اس سے اسی طرح اختلاف رکھتے ہوئے اور اسے ٹارگٹ کئے بغیر اپنا مدعی بیان کرسکتے ہیں۔ کافی ہے کہ اتنا بتادیں کہ آپ کی رائے مختلف ہے اور اسکی دلیل یہ ہے۔ابھی #احمق_ٹرمپ سے ملاقات پر ہی بحث و مباحثہ چل رہا تھا کہ خان صاحب نے انسٹیٹیوٹ آف پیس میں ایران سے متعلق سوال کے جواب میں شیعوں کے بارے میں ایک جملہ کہہ ڈالا، اب ہمیں لڑنے کا ایک اور موضوع مل گیا کوئی اسکو شیعوں کے حق میں سمجھا تو کوئی مخالفت میں۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ دونوں پہلو ساتھ موجود ہوں۔

یہ خبر بھی لازمی پڑھیں: عمران خان کی وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کرافغانستان پر امریکی موقف کی مخالفت

ایک جملہ جو مثبت پہلو رکھتا ہے اور اسے ایک غلط اور منفی مصداق سے تشبیہ دے دی گئی ہو اور اس پر خان صاحب ہی توضیح دیں تو زیادہ مناسب ہے لیکن عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے امریکہ میں بیٹھ کر ایسی بات کرنا مجھے ایک جرئت مندانہ اقدام لگتا ہے۔ گو کہ وزیر اعظم صاحب اسکو تحلیل کرتے وقت ایک جگہ غلطی کا شکار ہوئے یا غلط بیان کر بیٹھے۔مجھے شخصی پور پر بطور کلی اس دورے میں عمران خان صاحب کے رویہ سے پاکستان کے ایک پروقار چہرے کا احساس ہوا ہے۔ جس پر طنزاً یہ بھی کہا گیا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ ہم سے قرضہ لے بیٹھا ہے۔ اسکے علاؤہ بھی وزیر اعظم اکثر غیر ملکی دوروں میں عالمی رہبروں سے مرعوب و متاثر نہیں لگتے۔ یہ ایک مثبت چہرہ ہے جو پاکستان کے سابقہ سربراہوں میں کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔

تحریر: سید محمد روح اللہ رضوی

متعلقہ مضامین

Back to top button