پاکستان

پاراچنار، مسجد کے حوالے سے نجی ٹی وی کی رپورٹ جھوٹ پر مبنی ہے، یہ مسجد ماضی میں دہشت گردی کا مرکز رہی، علامہ عابد الحسینی

مسجد پر دہشتگردوں نے کوئی حملہ نہیں کیا ہے بلکہ انہی خبر دینے والے شرپسندوں نے دہشتگرد طالبان کو سہولت فراہم کرکے اس مسجد میں ٹھہرایا تھا اور اس مسجد سے بے گناہ اور مظلوم عوام پر حملے ہو رہے تھے۔

شیعت نیوز: گذشتہ دنوں نجی ٹی وی چینل پر پاراچنار کی ایک اہل سنت مسجد کے حوالے سے نشر ہونے والی جھوٹی اور من گھڑت خبر پر حقائق بیان کرتے ہوئے تحریک حسینی کے سربراہ سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسین الحسینی نے کہاکہ یہ وہ مسجد ہے جسے 1917ء میں طوری قبیلے کے اس وقت کے عمائدین نے اہل سنت قبیلے جاجی کو خیر سگالی کے طور پر وقف کیا تھا، جبکہ خود اپنے لئے اس کے مغرب میں موجودہ مرکزی امام بارگاہ کے مقام پر نسبتاً ایک بڑی مسجد کی بنیاد ڈالی۔ تاہم آگے جاکر اس معتدل سنی قبیلے جاجیوں کی گرفت اس مسجد پر ڈھیلی پڑ گئی اور اس پر بنیاد پرست اور سخت گیر قبائل منگل وغیرہ کی گرفت مضبوط ہوگئی۔ یوں انہوں نے 1970ء میں مینار کی تعمیر کو بہانہ بناکر اسی مسجد سے پاراچنار میں شیعہ سنی فسادات کا آغاز کر دیا۔ اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً اسی مسجد کو استعمال کرکے فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز ہوتا رہا۔

ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئےانہوں نے کہاکہ 1987ء، 1996ء میں اسی مسجد سے فسادات پھوٹ پڑے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ 12 ربیع الاول بمطابق یکم اپریل 2007ء کو عید میلاد النبی کے نام پر عید نظر منگل کی قیادت میں اسی مسجد سے جلوس برآمد ہوا، جنہوں نے تمام مسلمانوں بالخصوص پاراچنار کی 99 فیصد شیعہ آبادی کے جذبات کا لحاظ رکھے بغیر (نعوذ باللہ من ذالک) حسینیت مردہ باد، یزیدیت زندہ باد کے نعرے لگائے۔جس کے ردعمل میں 6 اپریل کو جب ہمارے کچھ جوانوں نے جلوس نکالا تو اس مسجد کے موجودہ مینار سے ان پر فائرنگ کرکے جنگ کا آغاز کر دیا گیا۔

یہ خبر بھی لازمی پڑھیں:پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے داعش کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پاک افغان بارڈر پر لایا گیا ہے،علامہ سید عابد حسین الحسینی

اس کے کچھ مہینے بعد 16 نومبر 2007ء کو اسی مسجد سے طالبان نے کارروائیاں شروع کیں اور حکومت کے ہوتے ہوئے پاراچنار کے مقامی طوری قبائل پر حملے شروع کئے۔ جس کے نتیجے میں یہاں ایک خونریز جنگ چھڑ گئی۔ مگر مقامی باشندوں نے طالبان اور ان کے سہولتکاروں کو شکست دیکر انہیں یہاں سے نکال دیا اور مسجد سمیت پورے پاراچنار کو ان کے نرغے سے واگزار کرایا۔ چنانچہ ٹی وی چینل کی یہ خبر اور خبر دینے والے کا بیان بالکل منافقت پر مبنی ہے۔ مسجد پر دہشتگردوں نے کوئی حملہ نہیں کیا ہے بلکہ انہی خبر دینے والے شرپسندوں نے دہشتگرد طالبان کو سہولت فراہم کرکے اس مسجد میں ٹھہرایا تھا اور اس مسجد سے بے گناہ اور مظلوم عوام پر حملے ہو رہے تھے۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت انہیں (دہشتگردوں کو) مقامی انتظامیہ، خصوصاً اس وقت کے تحصیلدار محال ریحان وغیرہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے کئی دن تک چاروں طرف موجود طوری قبائل کو خوب نشانہ بنایا۔ مارٹر کے گولے پھینک کر سینکڑوں افراد کو قتل اور زخمی کر دیا اور ساتھ واقع مسجد اور امام بارگاہ کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا۔ امام بارگاہ کی دیواریں اور مسجد کے دو مینار آج بھی ان کی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جن پر گولیوں کے نشانات ابھی تک واضح ہیں اور یہ کہ اس مسجد کے مینار سے چونکہ فائرنگ ہو رہی تھی، چنانچہ جہاں سے فائرنگ ہوتی ہے، یعنی جہاں مورچہ ہو، اس مقام پر مقابل فریق جوابی فائرنگ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ چنانچہ اس مسجد کا مینار بھی متاثر ہوا اور اس پر گولیوں کے نشانات پڑ گئے۔ فوج نے اسی متاثرہ مینار اور دیواروں پر موجود گولیوں کے نشانات مٹانے کیلئے رنگ روغن کرکے مرمت کی ہے۔ اکثریتی طوری قبائل کی مسجد و امام بارگاہ کو اسی حالت میں چھوڑ کر طالبان کے ان سہولتکاروں کی مسجد کو مرمت کرنے کو دہشتگرد عناصر ایک بار پھر غلط رنگ دیکر علاقے میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ نہایت قابل مذمت ہے۔

انہوں نے مزیدکہاکہ مجھے تو نہیں معلوم کہ انہوں نے کوئی کمک کی ہے یا نہیں۔ تاہم میں نے ایک بڑے پروگرام میں بریگیڈیئر پاک فوج کی موجودگی میں ان سے رو برو یہ شکایت کی تھی کہ مسجد جس کی بھی ہے، ہمارے لئے قابل احترام ہے۔ تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فوج کو مسجد پر موجود گولیوں کے معمولی نشانات تو نظر آرہے ہیں، مگر صدہ، سیدانو کلی اور خیواص میں صفحہ ہستی سے مٹنے والی ہماری مساجد اور امام بارگاہیں انہیں نظر نہیں آ رہیں۔ ان پر انہیں رحم نہیں آرہا بلکہ یہاں تک کہ صدہ میں ہماری مسجد و امام بارگاہ میں لوگ غلاظت ڈال کر طوریوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں، فوج ان کی تعمیر تو کیا اس کے گرد 10 فٹ کی دیوار تعمیر کرکے گندگی سے بچانے کی بھی کوشش نہیں کرتی تو عرض یہ ہے کہ حکومت معمولی سی عدالت اور انصاف سے کام لے تو یہاں شیعہ اور سنیوں کے مابین کوئی تنازعہ نہیں رہے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button