مقالہ جات

کالعدم جماعتوں کے سہولت کار بریگیڈئیراعجاز شاہ کی بطور وفاقی وزیر داخلہ تقرری کا پس منظر

تحریک انصاف حکومت کے اگلے ممکنہ وزیر داخلہ بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ کے ملک کے قومی منظر نامہ میں آنے کی کہانی کا آغاز اس وقت ہوا جب 6 اکتوبر 1998ء کو جب جنرل جہانگیر کرامت نے اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف سے ملاقات کے بعد استعفی دیا- نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ سامنے تھا۔ وزیراعظم ہاؤس سے ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر جاوید اقبال نے فون کرکے منگلا کے کور کمانڈر لیفٹینینٹ جنرل پرویز مشرف کو پیغام دیا کہ وزیراعظم ان سے ملنے کے خواہشمند ہیں۔ اس وقت تک نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ انتہائی خفیہ تھا۔ پرویز مشرف خود مخمصے میں تھے۔ ملک میں گنتی کے لوگ ہی جانتے تھے کہ اگلا آرمی چیف کون ہو گا۔ ادھر وزیراعظم ہاوس سے پیغام ملتے ہی پرویز مشرف منگلا سے اسلام آباد کے لئے نکلنے لگے تو گاڑی میں بیٹھتے وقت آئی ایس ائی لاہور کے سیکٹر انچارج کی کال آئی جس نے مشرف کو سب سے پہلے آگاہ کیا کہ انہیں نیا آرمی چیف تعینات کیا جا رہا ہے- پرویز مشرف کو اس بات کا یقین نہیں آیا مگر بعد کے حالات نے اس افسر کی بروقت معلومات پر مشرف کو اس کا گرویدہ بنا دیا۔ اس حساس ادارے کے افسر کا نام بریگیڈیئر اعجاز شاہ تھا۔

سنہ 1999ء میں وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف میں اختلافات رونما ہوئے تو دونوں ایک دوسرے پر نظر رکھنے لگے۔ نواز شریف کے خاص الخاص اور مبینہ رشتہ دار اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل ضیاء الدین بٹ تھے جن کے ماتحت ان کا ادارہ خاموشی سے سرک چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت اسی ادارے کے افسران پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے ساتھ رابطوں میں تھے۔ ان دنوں سیاستدانوں، باالخصوص شریف برادران اور خود جنرل ضیاء الدین بٹ پر نظر رکھنے کے لئے سب سے اہم پنجاب کا سیکٹر تھا جہاں آئی ایس آئی میں بریگیڈئیر اعجاز شاہ خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ جنرل ضیاء الدین بٹ اپنی نجی محفلوں میں سناتے رہتے ہیں کہ انھیں یقین ہی نہیں تھا کہ اعجازشاہ ان کا ساتھ چھوڑ کر مشرف کے پلڑے میں وزن ڈال دیں گے کیونکہ وہ جب بھی لاہور اترتے تو ائیرپورٹ پر اعجازشاہ ان کا استقبال کرتے اور ان سے محبت اور عقیدت کے اظہار کے طور پر ان کا بیگ بھی خود اٹھا لیتے تھے۔ البتہ اعجازشاہ چپکے سے ضیاء الدین بٹ کے مخالفین سے خفیہ رابطوں میں تھے، ظاہر ہے ان کا جنرل مشرف سے ایک ذاتی تعلق بھی تھا۔ کچھ دنوں بعد 12 اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت ہوگئی۔ ضیاء الدین بٹ گرفتار اور اعجاز شاہ ان چند لوگوں میں شمار ہونے لگے جو پنجاب میں انتہائی طاقتور تھے۔ مگر چند سال قبل اعجاز شاہ نے جنرل ضیاء الدین بٹ سے مل کر ان سے اپنے دوغلے کردار پر معذرت بھی کی۔

12 اکتوبر 1999ء کے فوری بعد بریگیڈئیر اعجاز شاہ کی فوجی ملازمت ختم ہونے پر انھیں پنجاب میں ہی ہوم سیکرٹری کے عہدے پر تعینات کردیا گیا۔ یہاں تعیناتی کے دوران اعجاز شاہ نے نومبر 2003ء تک القاعدہ، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور جیش محمد جیسی کم وبیش پندرہ (15) جماعتوں کے خلاف ہونے والے جعلی کریک ڈاون کی نگرانی بھی کی تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ جنرل مشرف حکومت دہشت گردی سے نمٹنے میں سنجیدہ ہے- مگر حقیقت حال یہ تھی کہ اس سارے عمل میں اعجاز شاہ جے ان جماعتوں کے بعض رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات بھی تھے- ان تعلقات کی وجہ سے اس جعلی کریک ڈاؤن کے نتیجہ میں یہ تنظیمیں زیادہ مضبوط ہوتی چلی گئیں- ان کالعدم تنظیموں سے بریگیڈئیر اعجاز شاہ کے ذاتی تعلقات کی وجہ ان کا کٹڑ شیعہ دشمن ہونا رہا ہے- اعجاز شاہ اتنے شیعہ دشمن ہیں کہ لشکر جھنگوی العالمی کے تھنک ٹینک میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے–

واضح رہے کہ بین الاقوامی صحافی ڈینئیل پرل کے قتل میں سزا یافتہ مجرم برطانوی نژاد پاکستانی عسکریت پسند احمد عمر سعید شیخ نے بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کے توسط سے فروری 2002ء میں گرفتاری دی تھی۔ ڈینیل پرل کو جنوری 2002ء میں اغوا کے بعد ذبح کر دیا گیا تھا اور اس میں عمر شیخ براہ راست ملوث تھا- عمر شیخ نے ڈینیل پرل سے ملاقات کی تھی اور اسے اسامہ بن لادن سے ملاقات اور انٹرویو کروانے کا چکمہ دیا تھا- عمر شیخ نے ڈینیل پرل کو اسامہ بن لادن اور ملا عمر کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کے کچھ تصاویری ثبوت بھی دئیے تھے- ایسے خطرناک دہشت گرد کے ساتھ اعجاز شاہ کے ذاتی تعلقات ہونا اور اس حد تک ہونا کہ وہ اپنی گرفتاری بھی اعجاز شاہ کے توسط سے دے, یہ ظاہر کرتا ہے کہ اعجاز شاہ ہرگز معقول انسان نہیں بلکہ دہشت گردی کے سرپرستوں میں سے ایک ہیں- اعجاز شاہ نے معروف صحافی سید اظہار سے ایک انٹرویو میں خود یہ کہا تھا کہ جب سکیورٹی اداروں کو احمد عمرسعید شیخ کی ڈینیل پرل کے اغواء میں ملوث ہونے کا پتہ لگا تو ان سے رابطہ کیا گیا تھا۔ شومئی قسمت کہ احمد عمرسعید شیخ کے ننیھال کا تعلق اعجاز شاہ کے آبائی علاقے ننکانہ صاحب سے تھا۔ عمر سعید شیخ کے ماموں اس وقت پنجاب میں ہی جج تعینات تھے۔ اعجازشاہ نے عمرسعید شیخ کی گرفتاری کے لئے ان کے ماموں سے بھی رابطہ کیا۔ اس وقت تک عمرسعید شیخ کے اہل خانہ بھی پکڑ لئے گئے تھے اس لئے عمر شیخ کو اپنے ماموں کے ذریعے اعجاز شاہ سے رابطہ کرنا پڑا اور بعد میں اعجاز شاہ کی ہدایت پر عمرسعید اس وقت لاہور کے ڈی آئی جی جاوید نور کی سرکاری رہائشگاہ گئے اور جا کر گرفتاری دی۔ ظاہر ہے اس سب میں اعجازشاہ کا کلیدی کردار تھا جو میڈیا کے نوٹس میں بھی آیا۔ عمر شیخ کے گھر والے یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ اعجاز شاہ عرصہ دراز سے عمر شیخ کے رابطہ میں تھے اور اس کی پرسرار سرگرمیوں کے بارے میں سب جانتے تھے-

اعجازشاہ کی ہوم سیکرٹری پنجاب تعیناتی کے دوران پرویز مشرف نے ملک میں نئے انتخابات منعقد کروانے کا حکم دیا تو اس وقت مشرف کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز نے پنجاب میں نئے منظر نامے کی تشکیل کے لیے کچھ عرصہ لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔ طارق عزیز، اس وقت کے چیف سیکرٹری حفیظ اختر رندھاوا اور ہوم سیکرٹری اعجازشاہ نے مل کر مسلم لیگ ق کے لئے جوڑ توڑ میں اہم کردار ادا کیا۔ انتخابات کے نتائج میں مسلم لیگ ن کو شکست ہوئی اور مرکز اور صوبے میں مسلم لیگ ق کی حکومتیں بنیں۔ مرکز میں وزارت عظمی کا قرعہ میر ظفراللہ جمالی کے نام نکلا جنھوں نے کرنل ریٹائرڈ بشیر ولی کو اپنا انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) چیف لگایا۔ اس دوران جنرل مشرف حکومت کی طرف سے بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ کو آسٹریلیا میں پاکستان کا ہائی کمشنر بنانے کی کوشش بھی کی گئی تو آسٹریلیا نے اس نامزدگی کو مسترد کردیا- بعد ازاں جب پرویز مشرف کا دل ظفراللہ جمالی سے اچاٹ ہوا تو پہلے مرحلے میں ان کے ڈی جی آئی بی بشیر ولی کو ہٹا کر اپنے پسندیدہ پنجاب کے ہوم سیکرٹری بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو تعینات کردیا گیا اور سبکدوش ہونے والے کرنل (ر) ولی محمد کو آسٹریلیا کا ہائی کمشنر بنا دیا گیا-

انٹیلی جنس بیورو کی سربراہی کے دوران اعجاز شاہ ایک نئے روپ میں سامنے آئے۔ وہ پرویز مشرف کے قریبی ترین آئی بی چیف سمجھے جاتے تھے۔ ظفراللہ جمالی کے بعد مختصرعرصے کے لئے چوہدری شجاعت اور پھر شوکت عزیز وزیراعظم بنے تو اعجاز شاہ بدستور صدر و آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو رپورٹ کرتے رہے۔ ان کے دور میں آئی بی متحرک ادارے کے طور پر سامنے آئی۔ تاہم یہ اعجاز شاہ کا دورہی تھا کہ جس میں آئی بی کی مختلف غیر ممالک میں پوسٹنگز کو آئی ایس آئی کے حق میں دست بردار کر دیا گیا جس سے آئی بی کو بڑا نقصان ہوا-

پرویز مشرف کی تنزلی کا آغاز ان کی طرف سے 9 مارچ 2007ء کو سابق چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد برطرف کرنے سے ہوا۔ اس ملاقات میں اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی ڈی جی ملٹری انٹیلیجینس میجرجنرل اعجاز ندیم میاں اور آئی بی چیف بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجازشاہ بھی موجود تھے۔ یہ وہی گھڑی تھی کہ جب ہر آنے والا دن مشرف کے اقتدار پر ان کی گرفت کمزور سے کمزور کرتا گیا۔ اعجاز شاہ نے بعد میں عدالت میں دیگر افراد کے ساتھ مشرف کے حق میں اپنا بیان حلفی بھی جمع کرایا تھا۔

پرویز مشرف نے اپنے کمزور ہوتے اقتدار کو بچانے کے لئے بے نظیر بھٹو سے مذاکرات کئے تو انھی دنوں بے نظیر بھٹو نے کالعدم تنظیموں کے عسکریت پسندوں کی مبینہ دھمکیوں کے پیش نظر ایک خط میں دیگر افراد کے ساتھ بریگیڈئیر اعجاز شاہ کا نام بھی ممکنہ قاتلوں کی فہرست میں لکھا۔ ظاہر ہے یہ بات اعجازشاہ کے لئے انتہائی ناگوار تھی۔ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں دھشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تو ایک بار پھر بریگیڈئیر رئٹائرڈ اعجاز شاہ کا نام جنرل حمید گل، پرویز الہی اور ارباب غلام رحیم کے ساتھ بے نظیر کی طرف سے لکھے گئے خط کے حوالے سے میڈیا کی زینت بنا رہا- پیپلز پارٹی نے بھی ہمیشہ سے بے نظیر قتل کیس کے بارے میں برگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کا نام لیا۔ نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اعجاز شاہ کو اپنے قتل میں نامزد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر مجھے قتل کر دیا جائے تو اعجاز شاہ سے تفتیش کی جائے۔ اعجاز شاہ کا نام بے نظیر بھٹو کی ایک امریکی دوست کی ای میل بھی سامنے آیا تھا جب محترمہ نے چوہدری پرویز الہٰی اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اور سابق آئی ایس آئی سربراہ حمید گل کو ملزمان کے طور پر نامزد کیا تھا مگر ایف آئی آر میں کسی ایک کو بھی نامزد نہیں کیا گیا۔ بریگیڈئیر اعجاز شاہ پر بےنظیر بھٹو کے قتل جیسا بڑا الزام لگنے کے باوجود پولیس اور ایف آئی اے نے کبھی انہیں شامل تفتیش نہیں کیا اور نہ ہی گرفتار کیا- اقوام متحدہ کمیشن نے اپنی کمزور تفتیش میں بریگیڈئیر اعجاز شاہ کو بےنظیر بھٹو کے قتل میں ملوث قرار "نہیں” دیا-

پیپلز پارٹی کی عام انتخابات 2008ء میں کامیابی کے بعد اعجاز شاہ نے 17 مارچ 2008ء کو اس وقت استحفیٰ دیا جب وہ ایک متنازع شخصیت بنے۔ ان پر الزام تھا کہ سرکاری ایجینسی کو سیاسی طور پر استعمال کر رہے تھے۔ یہ بات زبان زد عام رہی ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کی سربراہی کے دور میں بریگیڈئیر اعجاز شاہ نے ننکانہ صاحب میں سیاست کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت کام کیا مگر اس کے موثر ثمرات نہ مل سکے۔

2008ء کے الیکشن کے بعد بھی بریگیڈئیر اعجاز شاہ کا نام کسی اہم عہدہ کے لئے لیا جارہا تھا مگر پیپلز پارٹی کے احتجاج اور مزاحمت کے بعد جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی مداخلت نے ایسا نہیں ہونے دیا-

2013ء کے الیکشن میں بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ مسلم لیگ نون کی ٹکٹ کے امیدوار تھے مگر میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ اگر اعجاز شاہ کو ٹکٹ دیا جاتا ہے تو پھر جنرل پرویز مشرف کو بھی الیکشن کے لئے ٹکٹ دیا جائے۔

مسلم لیگ نون سے ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اعجاز شاہ کے پیپلزپارٹی کے چند رہنماؤں سے قریبی مراسم رہے۔ ایک مرتبہ ان کی ایک پرواز کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات ہوئی تاہم آصف زارداری کی طرف سے انہیں پیپلز پارٹی میں قبول کرنے میں صاف انکار کر دیا گیا- کچھ عرصے بعد تحریک انصاف کی مقبولیت کے بعد اعجاز شاہ کو عمران خان کے ساتھ شامل کروا دیا گیا۔ سال 2014ء کے دھرنے کے دوران اعجاز شاہ کا نام بھی دھرنے کے پس پردہ کرداروں سے رابطوں کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔

سال 2018ء کے عام انتخابات کے دوران اعجاز شاہ ننکانہ سے ایم این اے بنے تو ابتداء میں وہ وزارت داخلہ کے امیدوار تھے لیکن انہیں اس وقت مایوسی ہوئی کہ جب تحریک انصاف کی پہلی کابینہ میں ان کا نام بھی موجود نہیں تھا۔ کچھ عرصہ قبل عمران خان ان کے علاقے میں گئے تو انھوں نے اعجازشاہ کو نیشنل سیکیورٹی کے ایڈوائزر لگانے کا اعلان بھی کیا- یہ عہدہ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کے جانے سے عہدہ خالی ہوا تھا- بعد میں تحریک انصاف کے راہنماؤں کی مخالفت کے باعث اس کا نوٹیفیکیشن نہ جاری ہو سکا اور عمران خاں نے انھیں وفاقی وزیر پارلیمانی امور لگا دیا- اب وفاقی کابینہ میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر داخلہ لگایا گیا ہے جس کے بعد پاکستان کے اہل تشیع اپنے اوپر سخت ترین حکومتی کریک ڈاؤن اور سپاہ صحابہ و لشکر جھنگوی کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے لئے تیار رہیں-

 

متعلقہ مضامین

Back to top button