مقالہ جات

سعودی سرمایہ کاری! کیا سی یپک سے چین کو باہر کرنے کا گیم کھیلا جارہا ہے؟

سعودی عرب کی بھاری سرمایہ کاری اسی سلسلہ کڑی ہے ،امریکی اشارے پر عرب امارات اورقطر بھی انوسٹمنٹ کریں گے ،واشنگٹن بھی کوریڈور کا حصہ بنے گا،سب نے مل کر چین سے زیادہ پیسہ لگانے کا پلان بنا رکھا ہے ، آئل ریفائنری کے بہانے سعودیہ گوادر کی اراضی خریدنا چاہتا ہے، بیجنگ پریشان ہے ، پاکستان کو عقلمندی سے کارڈ کھیلنا ہوگا۔بریگیڈئیر(ر)آصف ہارون
پاکستان کے لئے امریکی رویے میں اچانک نرمی ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور قطر کی حددرجہ گرم جوشیاںاور پیسوں کی بوریوں کا منہ کھول دینے کا عمل بے معنی نہیں۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کے موقع پر 12سے 20ارب ڈالر کے معاہدے متوقع ہیں ۔معروف تجزیہ کار بریگیڈئیر(ر)آصف ہارون راجہ کے بقول یہ سب کچھ اس نئے کھیل کا حصہ ہے ، جو اس وقت سی پیک پر کھیلا جارہاہے اس کا واحد مقصد چین کو سی پیک سے باہر کرنا ہے۔لہٰذا نئے کھلاڑیوں کی جانب سے سی پیک پر چین سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا پلان بنایا گیا ہے ۔ بریگیڈئیر(ر)آصف ہارون راجہ سے ہونے والی بات چیت سوال و جواب کی شکل میںنذر قارئین ہے۔
س: سعودی ولی عہد کی پاکستان آمد اور اربوں روپے کے متوقع معاہدوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ،متحدہ عرب امارات اور قطر بھی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں ۔اس طرح امریکہ بھی سی پیک میں سرمایہ کاری کا خواہش مند ہے ۔
ج: امریکہ سمیت جتنی بین الاقوامی طاقتیں پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کو ختم کرنا چاہتی ہیں وہ اب ناکام ہو کر بیٹھ چکی ہیں ،کیونکہ پاکستان نے اپنے ایٹمی اثاثوں کےلئے ٹھوس سیکورٹی اقدامات کر رکھے ہیں کہ نہ اثاثوں کو اب کوئی چرا سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے ایسے میں امریکی اور اس کے حواری ممالک کےلئے اب سب سے بڑ ااور فوری خطرہ سی پیک ہے ،کیونکہ اس پراجیکٹ کی تکمیل سے خطے میں امریکہ ، بھارت اور اس کے دیگر حامی ممالک کی اجارہ داری صفر ہوجائےگی ۔پہلے سی پیک صرف پاکستان اور چین کا باہمی پراجیکٹ تھا ۔لیکن اب اس میںروس بھی شامل ہورہاہے ۔روس کے آنے سے وسط ایشائی ریاستیں خود بخود اس منصوبے میں آجائیں گی ۔سی پیک میں حصہ دار بننے کے علاوہ روس ”رشیا پاکستان اکنامک کوریڈور“بھی شروع کرنا چاہتا ہے ۔یہ سب کچھ امریکا کےلئے الارمنگ ہے ۔ لہذا اس پیش رفت کو روکنے اور سی پیک میں چین کے کر دارکو غیر موثر کر نے کےلئے نیا پلان ترتیب دیا گیا ہے ۔جس کے تحت پہلے مرحلے میں امریکہ نے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور قطر کو میدان میں اتاراہے ۔یہ تینوں مالدار ممالک پاکستان میں اس قدر بھاری سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیںکہ اس کا حجم چین کے سرمایہ کاری سے بڑھ جائےگا۔سی پیک کے آغاز پر چین نے 46ارب روپے کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیاتھا ۔تاہم گذشتہ دور حکومت میں اس رقم میں مزید اضافہ ہوا اور یہ سرمایہ کاری بڑھ کر 52ارب ڈالر تک پہنچ گئی ۔ اس میں سے اب تک 18ارب ڈالر خرچ کئے جا چکے ہیں تاہم اب امریکہ ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے اس سے زیادہ سرمایہ کاری کی تیاری کی جارہی ہے ۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی آمد پر 12ارب ڈالر کے معاہدے متوقع ہیں ۔یہ سرمایہ کاری 20ارب ڈالر تک جائےگی ۔اس طرح متحدہ ارب امارات اور قطر بھی فی کس 10،10ارب ڈالر سے زائدکی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں ۔اگلے مرحلے میں امریکہ کی طرف سے 20ارب ڈالر سے زائد کی انوسٹمنٹ کا امکان ہے ۔یوں ان تمام ممالک کی رقم کا حجم چین کی سرمایہ کاری سے بڑھ جائے گی ۔پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت سی پیک کو 2030ءتک مکمل ہو نا ہے ۔اس وقت تک منصوبے پر چینی سرمایہ کاری کا حجم 90سے 95ارب ڈالر تک جا سکتا ہے ۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ اور اس کے ہمنوا عرب ممالک بھی اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کریں گے۔مقصد یہ ہے کہ اگر سی پیک کو چین کے ہاتھسے کھینچتا ہے تو بڑھ کر ”بولی “لگانی ہو گی ۔
س : لیکن قطر کے تعلقات تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بہت کشیدہ ہیں ۔پھر وہ کیسے اس پلان کا حصہ بن گیا؟
ج: قطر کے چاہے سعودی عرب اور عرب امارات سے تعلقات بہتر نہ ہوں ، لیکن یہ تینوں ممالک امریکی ٹولز ہیں ۔ اور چونکہ یہ پلان امریکی ہے ،لہذا وہ سی پیک کے معاملے پر ان تینوں ممالک کو ایک پیج پر لے آیاہے ۔کوئی تین ہفتے قبل امریکہ نے اس ایشو پر قطر کا سعودی عرب اور عرب امارات سے پیچ اپ کر ادیا ہے ۔سارے شیخوں کی نظر گوادر پر ہے ،یعنی فوکل پوائنٹ گوادر ہے ۔سعودی عرب آئل ریفائنری کے بہانے درا صل گوادر میں اراضی خریدنا چاہتا ہے ۔اور اس کا دوسرا مقصد گوادرمیں بیٹھ کر ایران کو کاؤ نٹر کر نا ہے ،اس طرح قطر اور متحدہ عرب امارات بھی گوادر میں مختلف شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کرکے پلان کو آگے بڑھائیں گے ۔امریکہ کی جانب سے ممکن ہے کہ ڈیموں میں سرمایہ کاری کر دی جائے ۔ایران اس پیش رفقت سے ناراض ہے ۔تیل سے مالا مال گوادر اس کیلئے ہمیشہ اہم رہاہے ۔سننے میں آرہاہے کہ 1950-51میں پاکستان کا ایران سے ایک خفیہ معاہدہ ہوا تھا کہ پاکستان گوادر میں موجود وسیع ذخائر سےتیل نہیں نکالے گااور نہ ہی کسی دسرے ملک کو تیل نکالنے کا پروجیکٹ دے گاکیونکہ ایران کو خدشہ تھاکہ اگرایک بار گوادر سے تیل نکالنے کا کام شروع ہوگیا تو اس کی پیداوار ایرانی تیل کی پیداوار سے بڑھ جائےگی ۔لہذا پاکستان کےساتھ خفیہ معاہدہ کیا گیا ۔یہ معاہدہ کرانے میں اس وقت کے سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا اور ان کی اہلیہ ناہید مرزا نے اہم رول ادا کیاتھا ،اسکندر مرزابعد میں پاکستان کے صدر بھی بنے ۔اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید اسلام آباد میں ایرانی ڈیفنس اتاشی کی اہلیہ تھیں اور بعد میں طلاق لے کر انہوںنے اسکند ر مرزا سے شادی کر لی تھی ،اسکندر مرزا اور ناہید مرزا کی کوششوں سے ہونے والے خفیہ معاہدے کی مدت 2019ءیا اوخر 2020ءمیں ختم ہورہی ہے ۔لہذا اب سعودی عرب اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور نہ صرف آئل ریفائنری لگا کر ،بلکہ اراضہ خرید کر گوادر میں اپنےقدم جمانے کا خواہشمند ہے ۔
س : اس سارے معاملے کو چین کس نظر سے دیکھ رہاہے ۔
ج: چین اس وقت بہت پریشان ہے ۔اب اس کو سمجھ آگیا ہے کہ کھیل بگڑتا جارہاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت سی پیک سرد مہری کا شکار ہے۔ایسے کئی پراجیکٹ جو اب تک بن جانے چاہیے تھے نہیں بن سکے ہیں ۔مثلاً بلتستان میں زیر تکمیل انرجی پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچ جانا چاہیے تھا ،لیکن ابھی تک اس کی کوئی خبر نہیں ہے ۔
س : اس ساری صورتحال میں پاکستان کی ترجیحات کیا ہونی چاہیں ؟
ج:ہمیں ہرطرف سے سرمایہ کاری چاہیے ۔یہ درست ہے کہ چین ہمارا اچھا دوست ہے ، لیکن آپ دیکھیں کہ حال ہی میں اس نے سری لنکا کی پورٹ خرید لی ۔زیمبیا میں بھی یہی کیا ۔ملائشیامیں ایسا کرنے جار ہا تھا،لیکن مہا تیر محمد نے روک دیا ۔کل کو اگر چین نے یہ کہہ کر آپ اقتصادی طور پر ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے ،گوادر پر قبضے کی ٹھان لی تو پھر کیا ہو گا؟لہٰذا ہمیں اپنے کارڈ عقلمندی سے کھیلنے ہونگے ۔سی پیک کو بھی چلتے رہنا چاہئے ۔پاک رشیا اکنامک کوریڈور بھی کھلنا چاہئے اور سعودی سرمایہ کاری کو بھی آنے دینا چاہیے ۔ہر چیز میں اپنے مفادات کو آگے رکھنا ہو گا۔دنیا کا ہر ملک یہی کر تا ہے ۔ہم پہلے امریکہ اورروس کی کولڈ وار میں مارے گئے تھے اور اس وقت ہمارے ایک طرف ابھرتی عالمی طاقتیں چین اور روس ہیں اور دوسری طرف عالمی طاقت امریکا ہے ۔جبکہ ”جنگ “گوادر کے معاملے پر ہے ۔جہاں نہ صرف آئل و گیس کے بڑے ذخائر ہیں بلکہ وہاںسے سی پیک کا آغاز ہوتا ہے ۔امریکہ افغانستان میں سی لئے آیا تھا کہ اس نے دسط ایشیائی ریاستوں تاجکستان ،ازبکستان ، اور ترکمانستان میں بہت پہلے تیل و گیس کے ذخائر شناخت کر لئے تھے ۔چین نے جو سی پیک شروع کیا ہے ،اسے سلک روڈ کے نام سے امریکہ نے بنانا تھا ۔اس حوالے سے اب بھی امریکی عزائم تبدیل نہیں ہوئے ۔
س : روس بھی تو گرم پانیوں تک رسائی کے لئے افغانستان پر قابض ہو اتھا کیا اب اس کا ارادہ بدل گیا ہے ؟
ج: یہ بڑی دلچسپ بات ہے ۔سوویت یونین نے جب افغانستان پر چڑھائی کی تو اس کا گلا قدم پانیوں تک رسائی بتایا جارہا تھا ۔پاکستانی پالیسی ساز وں ،دانشوروں اور تجزیہ کاروں سب کے ذہین میں یہی بات تھی ۔ا س بنیاد پر ہم روس کی راہ میں رکاوٹ بنے اور فیصلہ کیا گیا کہ ہر صور ت روس کو روکنا ہے ۔لیکن آج ہم خود روس کو دعوت دے رہے ہیں تو کیا گرم پانیوں تک رسائی کی روسی خواہش ختم ہو چکی ؟
بشکریہ اُمت
مورخہ 13فروری 2019ئ

متعلقہ مضامین

Back to top button