مقالہ جات

اقدارِ اسلامی اور ویلنٹائن ڈے

شیعیت نیوز: اللہ کی نعمتوں کے شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو گناہ کے لیے استعمال نہ کیا جائے ۔ یہ عمل کوئی عام شخص انجام نہیں دے پاتا چہ جائیکہ وہ انسان کامل ہو۔ لیکن اپنے آپ کو ممکنہ حد تک برائیوں سے دور کرنا اوراپنے نفس کو بُرائی کے سامنے ہوتے ہوئے بھٹکنے نہ دینا ایک بہترین انسان و مسلمان کا فطری اور اسلامی فریضہ ہونا چاہئے۔

اچھائیوں اور بُرائیوں کا تعین :
ہمارے معاشرے میں جہاں نہ ہی تعلیم کو ، نہ تربیت کو ، نہ ہی ڈگری کو ، نہ ہی اقتدار کو اور نہ ہی اوصاف و سیرت کو پیمانہ شخصیت بنایا جاتا ہے ۔ بلکہ جو انسان جتنا انسانیت کے دائرے سے خارج ہو گا اس کا Standard اتنا ہی بلند تصور کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ ہم اپنی معاشرتی ، مذہبی اور ثقافتی اقدار اور تقاضوں سے بے خبر مغربی میڈیا اور اس کے اثرات کے زیر اثر بہے چلے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہماری اچھائیوں اور بُرائیوں کے پیمانے بھی مختلف ہو گئے ہیں ۔ جو بات نہ اسلامی اقدار و معاشرہ گوا رہ کر سکتا ہے اور نہ ہی ہمیں بحیثیت مسلمان ان کو منانا یا ان کی ترویج نہیں کرنی چاہیئے۔
لیکن ہم بڑے فخریہ انداز سے ہر چینل پر اس کو منا رہے ہوتے ہیں اور اس کو ہر پلیٹ فارم پر promoteبھی کیا جا رہا ہوتا ہے جبکہ یہ وہ موضوعات ہیں جو کہ ہم اپنے پاکیزہ اور مخلص ترین رشتوں سے ڈسکس بھی نہیں کرتے نہ ہی کر سکتے ہیں ۔

لیکن ہر بھائی اور ہر بہن کسی نہ کسی انداز سے اس غیر شرعی اور غیر اخلاقی فضول حرکت کو کرنا اس لیے ضروری سمجھتا ہے لیکن وہ اپنے آپ کو ’’ماڈرن‘‘ کہلوانا چاہتا ۔ جبکہ اسلام کہتا ہے ۔
دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرو جو سلوک کو اپنے لیے پسند کرتے ہو ۔یہ قول صرف حسنِ سلوک کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ ہر اس فعل پر صادر آتا ہے جو ہم دوسروں کے لیے تو پسند کرتے ہیں لیکن اپنے لیے نہیں یہ مومن / مسلمان کا شیوہ نہیں ۔ مومن و مسلم کا شیوہ تو سنتِ رسول ؐ اور اہلبیت رسولؐ کی پیروی ہونا چاہیئےکہ اپنا لباس عروسی دے کر دخترِ پیغمبر اکرم ؐ خود عام لباس زیب تن فرمائے۔ خاندان نبوت اپنےسامنے کا طعام دے کر ( راہِ خدا میں ) خود پانی سے افطار فرمائے ۔

کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر ہم اپنی محرم خواتین کے لیے یہ پسند نہیں کرتے کہ وہ اس طرح کے کسی فعل میں مبتلا ہوتو ہم دوسری خواتین کے لیے کیوں اس فعل کو انجام دیتے ہیں۔
مغربی ذہنیت سے آلودہ معاشرہ جس کی پیدائش اور افزائش کی تمام تر ذمہ داری میڈیا پر عائد ہوتی ہے جوکہ ویلنٹائن ڈے جیسی حرام رسم کو بھی ایک قومی فریضے کے طور پر منا رہا ہوتا ہے ۔
مجھے یاد ہے جب میں فرسٹ ائیر میں آئی اور ( ہر روز کی طرح ) معمول کی مطابق ایک صبح کالج پہنچی تو کالج کے داخلی دروازے سے اندر تک الگ ہی دلکش نظارے آنکھوں کو منور کر رہے تھے ۔ دروازے میں ایک بوڑھی خاتون چادر کے اوپر پھول لگائے ہوئے Red Rose بیچ رہی تھی اور اندر بھی نظارے کچھ ایسے ہی تھےکہ ہر دوسری لڑکی کے ہاتھ میں ایک Red Rose تھا میں نے سوچا ! یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے ؟؟؟

کیا کوئی ڈے یا پروگرام تھا جو مجھ کو معلوم نہیں تھا ؟؟؟ جب خود پر قابو نہ رکھ پائی جو آخر ہار کر قریب گزرتی ہوئی ایک لڑکی سے پوچھا ؟؟
سنو یہ سب پھول کیوں لیے ہوئے ہیں دروازے پر بھی اسٹال لگا ہوا ہے تو جواب ملا اے ! تمہیں معلوم نہیں آج ویلنٹائن ڈے ہے ۔

ویلنٹائن ڈے کیا ہے ؟
برطانیہ میں تقریبا 1700 کی دوہائی میں ایک پادری ’’ سینٹ ویلنٹائن ‘‘کا تھا ۔ اس کو وہاں کے بادشاہ کے حکم عدولی پر سزا موت کے حکم پر قید کیا گیا اس لیے وہاں کی جیلر کی بیٹی سے ناجائز اور غیر اخلاقی تعلقات استوار ہوئے اور وہ لڑکی اس کے لیے Red Rose لے کر آئی تھی۔ رفتہ رفتہ 14 فروری کو ( جس دن اس پادری کو قتل کیا گیا ) محبت کی یاد گار کا درجہ دے دیا گیا اور برطانیہ میں اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کو اس دن محبت بھرے خطوط، کارڈز ، پیغامات اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پا گیا ۔

ایک معروف و بہت اعلیٰ ماہر نفسیات اور کونسلر سید قاسم علی شاہ فرماتے ہیں۔
ہر انسان کو اپنی زندگی میں ایک رول ماڈل / آئیڈئل کی تلاش ہوتی ہے ۔ اس لیے گھریلو ماحول کو اس طرح بنانا چاہیئے کہ ہمارے بچے رول ماڈل / آئیڈئل کی تلاش میں غلط انسان کو اپنا رول ماڈل نہ بنا لیں جس کے نتیجے میں وہ غلط اطوار وروش نہ اپنا لیں۔

والدین اور اولاد کا تعلق اتنا قریب ترین ہونا چاہئے کہ وہ اپنی سوچ کو بہترین راہ پر استوار کر کے اچھے اور بُرے کا تعین کر سکیں ۔ اس لیے اعداد و شمار کی بنیاد پر ہونے والی تحقیقات اس حقیقت کو آشکار ہوتی ہے کہ عفت اور پاکدامنی کے منافی اعمال کے مرتکب ہونے والے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد کا تعلق ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جنہیں ان کی گھریلو زندگی میں کسی قسم کا پیار و محبت نہیں ملا ہو ۔ یہ گروہ ’’ اصول ازالہ ‘‘ کے تحت سے کوشش کرتا ہے کہ گھر کے باہر کسی ایسی ہستی کی تلاش کرے جو ان سے اظہارِ محبت کرے۔
کیونکہ دونوں جنسوں ( نر و مادہ ) کے درمیان کشش ایک فطری تقاضہ ہے لیکن تربیت اولاد میں اس بات کو ضرور با لضرور محلوظ خاطر رکھیں کہ حدود کا تعین کر کے اولاد پر اپنا شعار واضح کریں اور عملاََ و فعلاََ ان کو اسلامی اور اخلاقی طور پر اپنے بہترین نظریات کا حامی بنائیں ۔

کیونکہ بچہ جو دیکھتا ہے وہی سیکھتا ہے ۔ اس طرح بچوں کے ذہنوں کو اس طرح استوار کیا جائے کہ وہ غلط اور صحیح کا فیصلہ کرنے کے قابل ہو جائیں جو وہ معاشرے میں ایک فرد کا کردار نبھائیں ۔
نہج البلاغہ میں امیر المومنین حضرت علی ؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ جس کسی میں ( اس کے انداز ) واعظ و باز رکھنے والے نہ ہو اس کے لیے خارجی عوامل چنداں مفید نہیں ہو سکتے ۔‘‘

جس طرح صحت مند جسم کی مدافقی نظام مضبوط ہو تو بیماری بالمشکل ہی حملہ کر پاتی ہے اس طرح انسان کا اندرونی نظام ( قلبی حالات ) نورِ خدا و ایمان سے منور ہو تو اس پر برائی و گناہ حملہ کر کے بھی ناکام لوٹتے ہیں ۔

رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’ قیامت کے دن کوئی شخص اپنی جگہ سے قدم آگے نہیں بڑھا سکے گا جب تک کہ اس سوال کا جواب نہ دے کہ زندگی کن کاموں میں گزاری ہے اور جوانی کیسے اور کس راستے میں گزاری ہے؟۔ ‘‘

جب ہی علماء فرماتے ہیں اس دنیا میں اگر ڈرنے والی کوئی چیز ہو تو وہ خود انسان کا اپنا نفس ہے ۔

حدیث قدسی ہے ۔ ’’جو شخص بھی باوجود دل کے تقاضے کے میرے اللہ کے خوف سے اپنی نظر کو ( نامحرم سے ) پھیر لے اس کے بدلے میں اس کو پختہ ایمان دؤں گا ۔ جس کی لذت کو وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا ۔‘‘

اور یہ کردار اوصاف والدین ہی اپنے اولاد کو فراہم کر سکتے ہیں ۔ اس لیے امام خمینیؒ نے قم کی باحجاب خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ آپ ( خواتین ) علم حاصل کیجئے اور خود کو اخلاقی اعمال سے آراستہ کیجئے ، آپ کا دامن ایک مدرسہ ہے جس میں عالی مرتبت جوانوں کی تربیت ہونی چاہیئے ۔ ‘‘

غرضیکہ عرب کی جاہلیت اور گندگی سے پُر معاشرے میں سے صادق اور امین رسول ؐ اور طاہرہ و بتول کا لقب پانے والی خدیجہ سلام اللہ علیھا کے اوپر ایمانِ کامل رکھنے والے معاشرے کے افراد کو تو ان بے ہودہ اور جاہلانہ رسوم کی نہ صرف تردید کرنی چاہیئے۔ بلکہ ہر پلیٹ فارم سے اس طرح کی مغرب ذرہ تہذیبی ہتھکنڈوں کا منہ توڑ جواب دینا چاہیئے۔

کیونکہ یہ اس قوم کی بے ہودہ رسم ہے جہاں ہر قوم کی اخلاقی پستی کا یہ عمل ہے کہ صدرِ مملکت نے اپنی تقریر میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو شادی کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ ( کسی سالوں پہلے صدرِ امریکہ کی تقریر میں )۔یہ قوم خود جس پستی کی جانب مائل ہے اس کی جانب ہمارے جوانوں کو مائل کر رہی ہے۔

جب کہ ہمارا اشعار زندگی ، ایمان اور عقیدہ اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ حضرت علیؑ فرماتے ہیں ’’ جو کچھ شخص اپنے میلاناتِ جنسی پر کنٹرول کرلے ، خواہشات پر قابو پا لے وہ اپنے شرف و عزت کو محفوظ کر لیتا ہے ۔‘‘

اس بات کا ہر گز یہ معنیٰ نہیں کہ انسان کسی کی جانب مائل نہ ہو یا اپنی فطری تقاضوں کی نفی کرے بلکہ انسان کو اپنی حدود کا تعین کرکے اپنی حاجات و تسکین کا ذریعہ حاصل کرنا اسلام نے جائز قرار دیا ہے ۔
اس لیے اسلام چھوٹی عمر کی شادی ، میانہ روی، شرم و حیا، عفت و پاکدامنی، جیسے اوصاف کو اہمیت دیتا ہے ۔

ایک روز زلیخا نے حضرت یوسف ؑ سے التجا کی کہ ذرا آنکھیں اُٹھا کر مجھے دیکھو ۔
تو فرمایا مجھے اندیشہ ہے کہ اندھا ہو جاؤں !
وہ کہنے لگی تمہاری آنکھیں کس قدر خوبصورت ہیں !
تو فرمایا جب میں قبر میں اُتارا جاؤں گاتو میرے چہرےکی جو چیز سب سے پہلے گر جائے گی وہ یہی آنکھیں ہیں ۔
پھر کہنے لگی تمہارے جسم کی خوشبو کتنی اچھی ہے ۔
تو یوسف ؑ نے فرمایا ! اگر میری وفات کے تین دن بعد میری لاش کو سونگھو تو بھاگ کھڑی ہو گی ۔
زلیخا نے ( التجا کرتے ہوئے ) کہا آپ میرے نزدیک کیوں نہیں آتے ۔
تو نبی خدا نے فرمایا:تم سے دور رہ کر خدا وند عالم کی قربت حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔
اس نے ( زلیخا ) نے پھر التجا کی میرے بستر ریشمی ( نرم و ملام ) ہے اُٹھواس پر چل کرمیری خواہش پوری کرو ۔
تو فرمایا : مجھے خوف ہے کہ جنت میں میرا جو حصہ ہے وہ ختم ہو جائے گا۔
زلیخا نے کہا ( اگر تم میری بات نہیں مانو گے تو ) تمہیں شکنجوں میں جکڑ دوں گی۔
تو یوسف ؑ گویا ہوئے : اللہ میری حفاظت فرمائے گا ۔ (از : گفتار انبیاء)

اس پورے واقعے میں انسان سے انسانِ کامل تک کا سفر طے کر سکتا ہے ۔ اگر چہ معنیٰ و مقصد سے آشنا ہو جائیں اس لیے قرآن نے فرمایا کہ یہ صرف قصّے نہیں بلکہ عبرت کےلیے نصیحتیں ہیں۔
یہ وہ انسان جو تمام تر سہولیات ، آزادی و آسائشوں کے باوجود گناہ کو سامنے پا کر اپنے نفس کو مات دے دے وہ انسان ،انسان کہلانے کا مستحق ہے اور جب ہمارے نوجوان بلکہ نہ صرف نوجوان بلکہ قوم کا ہر فرد عشقِ حقیقی کی جانب سفر کر کے اپنے جائز طریقوں کو بروئے کار اپنی خواہشات و حاجات پوری کرے تو پھر کوئی شک نہیں کہ مصطفیٰ چمران ، حسن نصراللہ، شہید مطہری اور استاد سبط جعفر جیسے متقی افراد مسلمان اور خصوصا شعیت کا سرمایہ فخر ہوں گے۔

حضرت لقمان نے اپنے فرزند سے فرمایا : ’’ اے نورِ نظر ! جن چہروں کو دیکھنا جائز نہیں ہے ان سے اپنی نظروں کو بچاؤ ۔ اور آسمان و زمین ، پہاڑ و مخلوقات خدا پر زیادہ غور کرو تو یہ چیزیں تمہارے قلب کے لیےبہترین نصیحت ثابت ہو گی۔‘‘ ( ماخوذ از کتاب : گفتار انبیاء )

 

تحریر : سیدہ فرح شیریں رضوی

 

 

متعلقہ مضامین

Back to top button