پاکستانی میڈیا محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کے بنیادی ہدف پاک اسرائیل تعلقات کے قیام کیلئےسرگرم

شیعیت نیوز: پاکستانی نجی ٹی وی کااینکر کامران خان اور سلفی اسکالر جاوید احمد غامدی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان سے قبل اس کے دورے کے بنیادی ہدف یعنیٰ پاک اسرائیل تعلقات کے قیام کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں ،سلفی اسکالر جاوید غامدی نے یہودونصاریٰ کے ساتھ تعلقات نا رکھنے کےقرآنی حکم کودور نبوت ؐ کے مخصوص حالات وواقعات سے منصوب قرار دیکر عصرحاضرمیں اس حکم کی پیروی کو غیر ضروری قراردے دیا(ناعوذباللہ) ۔
تفصیلات کے مطابق کامران خان نے دنیا نیوز کے ٹاک شومیں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان منقطع تعلقات کے قیام کیلئے ماحول سازی کیلئے خصوصی پروگرام نشر کیا جس میں اس نے مسیحیوں کے روحانی پیشواپوپ فرانسس کےحالیہ دورہ متحدہ عرب امارات کے تاریخی تناظر میں ابتدایہ میں کہاکہ بین المذاہب ریاستی تعلقات میں امریکہ اور سعودی عرب کے قریبی تعلقات نہایت اہمیت کے حامل ہیں، یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا پہلا سرکاری دورہ سعودی عرب کا ہی کیا تھا،اہم بات یہ بھی ہے کہ اب مسلم ممالک عیسائی ریاستوں اور اسرائیل کے ساتھ معتدل تعلقات کی جانب بڑھ رہے ہیں،ایک وقت تھا کہ جب عرب دنیا سمیت اسلامی ممالک اور اسرائیل ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتے تھے لیکن اب تین مسلم ممالک ترکی ، مصر اور اردن اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں جبکہ 5مسلم ممالک بحرین ، مراکش تیونس ، عمان اور قطرکے 90کی دہائی سے اسرائیل کے ساتھ رسمی تعلقات موجود ہیں،البتہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہےجہاں اسرائیل کو اب بھی دشمن سمجھا جاتاہےاور ہمارے پاسپورٹ پر باقائدہ درج ہے کہ یہ پاسپورٹ ماسوائے اسرائیل کے تمام ممالک کے لئے کارآمد ہے۔
بعد ازاںکامران خان نے سلفی اسکالر جاوید غامدی سے سوال کیا کہ کیا مجموعی طور پرہمارا مذہب اور اسلامی تعلیمات ہم پر کسی قسم کی قدغن عائد کرتی ہیں کہ ہم ایسے ممالک جہاں باکثرت یہودی یا نصرانی رہتے ہیں ان کے ساتھ بھرپور خارجہ یا کاروباری تعلقات رکھیں ،کوئی قدغن ہے اس حوالے سے ؟؟
جاوید غامدی نے اس سوا ل کے جواب میں کہاکہ ہر گز کوئی قدغن نہیں ہے ،یہ سب ہمارے بھائی ہیں،ہمیں توتعلیم دی گئی ہے کہ تم سب آدم کی اولاد ہو، ہمیں بتایا گیاکہ تمہارے درمیان پیغمبروں کی وساطت سے تعلق پیدا ہواہے، وہ بھی انہی پیغمبرو ں کو مانتے ہیں جن کے ہم ماننے والے ہیں، ہم اگر حضرت مسیح ؑ کو نا مانیں تو ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا،قرآن
مجید نے جگہ جگہ مسیحیوں کی تعریف کی ہے اور یہ بتایاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں رحمت رکھی ہے ،امن کی طرف ایک فطری رجحان رکھاہے،بعض موقعوں پر جنگ وجدال کی نوبت آجاتی ہے،تاریخ میں ایسے مواقع آئے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی وہ ہمارے دینی بھائی ہیں۔
کامران خان کے قرآن پاک کے یہود ونصاریٰ سے تعلقات نارکھنے کی رکاوٹ کے حکم کے سوال کی وضاحت پر ملعون غامدی نے قرآن پاک کے حکم کو ناعوذباللہ قصہ پارینہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ بات قرآن مجید میں اس وقت کہی گئی تھی جب جزیرہ نما عرب میں یہود ونصاریٰ دونوں مل کر رسالت مآب ؐکے مقابلے میں آگئے تھے،اس وقت کہاگیاتھاکہ یہ لوگ دوستوں کے قابل نہیں ہیں یہ لوگ دشمنی پال بیٹھے ہیں اور ان لوگوں نے محمد رسول اللہ ؐکا انکار کردیا ہے تو یہ اس وقت کی کشمکش میں یہ صورت حال پیداہوئی تھی،بحیثیت مجموعی انہیں دین کی دعوت دی گئی ہے کہ اے اہل کتاب آئو مشترکات پر اکھٹا ہوجائو، وقتی طور جو حالات پیداہوئے اس میں تعلقات منقطع کیئے گئے۔
واضح رہے کہ ملعون جاوید غامدی کایہود ونصاریٰ کے متعلق مندرجہ بالا نظریہ تعلیمات قرآن وسنت کے سراسرمنافی ہے، قرآن کا کوئی بھی حکم وقتی نہیں ہوتا بلکہ تاحکم ثانی وہ حکم برقرار رہتاہے،جس کی واضح دلیل قرآن پاک میں موجود سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر 106ہے جس میں خدا وند متعال نے ارشاد فرمایا!
مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٠٦﴾
’’اور اے رسول ہم جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا دلوں سے محو کردیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کی جیسی آیت ضرور لے آتے ہیں. کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے ‘‘
تو غامدی ملعون نے کس حیثیت میں قرآن میں موجود حکم خداکی نفی کی ہےاور امت مسلمہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے،جبکہ غامدی نے اپنے بیان میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے مشترکات کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں اور مسیحیوں کے عقیدے میں مماثلت کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ اگر ہماراحضرت مسیح پر ایمان نا ہوتو ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا، یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے تھی کہ مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ خدا کے بیٹے ہیں (ناعوذبااللہ) جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ خداکے نہیں بلکہ حضرت مریم ؑ کے بیٹے ہیں ۔