مقالہ جات

سال 2018ء سعودیوں کی شکست جبکہ ایران کی فتوحات کا سال ثابت ہوا ہے:روزنامہ دی گارڈین

برطانیہ سے شائع ہونے والے ایک مشہور روزنامہ نے کہا ہے کہ سال 2018ء سعودی عرب کیلئےمختلف میدانوں میں شکست کا سال ثابت ہوا ہےجبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے عالمی طاقتوں کے خلاف اسی سال میں نمایاں فتوحات حاصل کی ہیں۔

روزنامہ دی گارڈین نے اپنے ادارے میں لکھا کہ سال 2018ء سعودی عرب کیلئےمختلف میدانوں میں شکست کا سال ثابت ہوا ہےجبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے عالمی طاقتوں کے خلاف اسی سال میں نمایاں فتوحات حاصل کی ہیں۔

روز نامہ نے لکھا کہ سال 2018ء میں ٹرمپ کی حمایت سے سعودی عرب کے ناپختہ اورناتجربہ کار ولی عہد محمد بن سلمان نے بعض ایسے جارحانہ اقدامات کئے جو مشرق وسطیٰ علاقے میں خونریزی اور تشدد کا باعث بنے۔روزنامہ نے لکھا کہ محمد بن سلمان نے یہ ثابت کردیا کہ اُن میں علاقائی ممالک کو متحد کرنے میں تجربہ موجود نہیں ہے ۔

روزنامہ نے لکھا کہ ترکی کے استنبول شہر میں سعودی سفارتخانے میں بن سلمان کے حکم سے جمال خاشقچی کےبہیمانہ قتل سے عالمی وعلاقائی سطح پر سعودی شاہی خاندان کی تصویر مزید داغدار ہوئی ہے۔روزنامہ نے لکھا کہ بن سلمان کو حتیٰ یمن جیسے غریب ملک میں شرمناک شکست ہوئی قطر کے ساتھ محاذ آرائی میں شکست بن سلمان کا ایک اورناکام پروجیکٹ ثابت ہوا ۔

روزنامہ نے لکھا کہ تمام بین الاقوامی تنظیموں کے رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی محاصرے کے نتیجے میں نہ صرف اس ملک کو کوئی اقتصادی اور مالی مسائل پیدا نہیں ہوئے بلکہ اس کی جیو پولٹیکل پوزیشن بھی مستحکم ہوئی۔

روزنامہ نے لکھا کہ سعودیوں کو نہ صرف یمن جنگ میں شکست ہوئی ہے بلکہ اسٹریٹجک ساحلی شہر حدیدہ پر قبضہ کرنے کی سعودیہ اوراس کے اتحادیوں کی کوششیں بھی بے کارثابت ہوئی ہیں ۔روزنامہ نے لکھا کہ تحریک انصاراللہ کےساتھ اسٹاک ہوم میں مذاکرات مقاومتی فورسز کی اہم فتح جبکہ سعودیوں کیلئے ایک اورشکست ثابت ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ پچّیس مارچ دو ہزار پندرہ کو امریکہ کی حمایت اور سعودی عرب کی سرکردگی میں علاقے کے ملکوں کے اتحاد کے حملوں سے یمن میں فوجی مداخلت شروع ہوئی ہے جو بدستور جاری ہے یمن پر حملوں کے نتیجے میں اب تک دسیوں ہزار یمنی شہری منجملہ عورتیں اور بچے خاک و خون میں غلطاں ہو چکے ہیں۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ وہ ممالک، جو انسانی حقوق کا دم بھرتے ہیں، یمن میں غیر انسانی جرائم کے بارے میں انھوں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور ان ممالک کی جانب سے وحشیانہ جرائم پر کسی بھی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button