پاکستان

سعودی نوکر ی کیسے کی ؟ عدالت عظمی نے جنرل راحیل و پاشا کے این او سی طلب کرلئے

شیعیت نیوز: عدالت عظمیٰ میں ’’اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کی دہری شہریت‘‘ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سیکرٹری دفاع ضمیر الحسن شاہ نے بیان کیا ہے کہ تینوں مسلح افواج میں سپاہی سے لیکر جنرل تک ایک بھی شخص دہری شہریت کا حامل نہیں ہے جبکہ فاضل عدالت نے سیکرٹری دفاع کو آئندہ سماعت تک تینوں مسلح افواج کے کمیشنڈ افسران اور انکی بیگمات کی شہریت سے متعلق تمام ترتفصیلات پیش کرنے اورسابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف اورسابق ڈائریکٹر جنرل، آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شجاع پاشا کی بیرونی ممالک میں ملازمت سے متعلق وفاقی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے این او سی عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آبزرویشن دی ہے کہ اس قدر اہم نوعیت کے سابق حکومتی اہلکاروں کی بیرونی ممالک میں ملازمت سے حساس معلومات افشاء بھی ہوسکتی ہیں۔ ریٹا ئر منٹ کے فوری بعد بیرون ملک ملازمت کیسے کرلی، کیا فوجی افسروں پر قانون لاگو نہیں ہوتا، دیکھنا ہوگا انہیں سابق وفاقی کابینہ نےاجازت دی تھی یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا حکومت سول سرونٹس کو بیرون ملک ملازمت کی خصوصی اجازت دے سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے27؍ غیر ملکی سرکاری افسران وضاحت کیلئےطلب کرلیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بند یا ل اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید، سیکرٹری دا خلہ اور سیکرٹری دفاع پیش ہوئے۔اٹارنی جنرل نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سٹیزن شپ ایکٹ مجریہ 1951کی سیکشن 14کے تحت دہری شہریت کے حامل سول سرونٹس کو غیر ملکی شہریت چھوڑنی ہوتی ہے اور ایف آئی اے نے تفتیش کے بعد 27سرکاری ملازمین کا کھوج لگایا ہے جو غیرملکی شہری ہیں اورقانون کے مطابق غیرملکی شہری پاکستان کا سرکاری ملازم نہیں ہوسکتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکشن 14بالکل واضح ہے کہ ہر وہ شخص جس کی کسی اور ملک کی شہریت ہے وہ پاکستان کا شہری نہیں رہ سکتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سرکاری ملازم کی سو فیصد وفاداری ریاست پاکستان کے ساتھ ہونی چاہئے۔ جب کوئی سرکاری ملازم کسی اور ملک کا بھی شہری ہو تو ان کی وفاداری تقسیم ہوجاتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ غیرملکی شہریت کسی مقصد کیلئے لیتے ہیں،وہ چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان سے ریٹائرڈ ہو کر پنشن یہاں سے لیں اور باقی زندگی اہل خانہ کے ساتھ دوسرے ملک میں گزاریں۔ عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 19ممالک کے ساتھ پاکستان کے شہریوں کا دہری شہریت رکھنے کا معاہدہ ہے، لیکن ایف آئی اے نے جن 27 غیر ملکی سرکاری ملازمین کے نام سامنے لائے ہیں ان میں سے ایک کا تعلق بھی مذکورہ 19 ممالک کے ساتھ نہیں ہے بلکہ وہ افغان شہری ہیں۔دوران سماعت فاضل چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل شجاع پاشا نے ریٹائرمنٹ کے چند دن بعد دبئی جاکر ملازمت اختیار کرلی تھی۔جنرل راحیل شریف نے بھی بیرونی ملک ملازمت اختیار کی ہے، کیا سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت پر دو سالہ قانونی پابندی کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا ہے۔اتنے بڑے اور اہم اداروں کے سربراہ یوں ہی بیرون ملک چلے جاتے ہیں، کیا قانون میں اسکی کوئی ممانعت نہیں ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق وفاقی حکومت سول سرونٹس کو بیرون ملک ملازمت کی خصوصی اجازت دے سکتی ہے۔ملازمت ختم ہونے کے دو سال بعد کوئی بھی سرکاری ملازم بیرون ملک جاکر نوکری کرسکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایجنسیوں کے لوگوں کی بہت قدر کرتے ہیں، ان لوگوں کو تو بہت تحفظ ملنا چاہئے کیونکہ ان کے پاس بڑی حساس معلومات ہوتی ہیں، ایسے لوگوں کو تو حفاظت دینی چاہئے،خدانخواستہ کچھ ہوجائے تو یہ معلومات افشاء بھی ہوسکتی ہیں اس معاملے کو بغور دیکھنا ہوگا۔ دوران سماعت عدالت کے نوٹس پر سیکرٹری دفاع نے بھی افواج پاکستان کے سپاہی سے لیکر جنرلز تک کی دہری شہریت سے متعلق جواب جمع کراتے ہوئے بیان کیا تینوں مسلح افواج میں کوئی اہلکار یا افسر دہری شہریت کا حامل نہیں ہے۔انھوں نے بتایا کہ فوج کے قواعدو ضوابط کے مطابق دہری شہریت رکھنے کی اجازت ہی نہیں ہے اسی لئے تینوں مسلح افواج میں کسی بھی اسامی پر بھرتی کے اشتہار میں بھی واضح طور پر لکھا جاتا ہے کہ دہری شہریت کےحامل افراد اس اسامی کیلئے اپلائی کرنے کے اہل نہیں ہیں جبکہ فوج میں بھرتی کیلئے پاکستانیوں کو غیرملکی شہریت چھوڑنی پڑتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے کہ کسی افسر یا اہلکار نے ادارے سے غلط بیانی کرتے ہوئے اپنی دہری شہریت چھپائی ہو اسلئے ضروری ہے کہ آپ تصدیق کروائیں۔انھوں نے سیکرٹری دفاع کو کہاکہ وہ ایک سوالنامہ تیار کرکے کمیشنڈ افسران میں تقسیم کریں جس سے انکے اور انکی ازواج کی دہری شہریت سے متعلق معلومات طلب کی جائیں۔عدالت کے استفسار پر سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ کسی بھی فوجی کی غیرملکی خاتون سے شادی آرمی چیف کی پیشگی اجازت سے مشروط ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف وفاقی حکومت کی اجازت سے بیرونی ملک میں ملازمت کیلئے گئے ہیں ،لیکن لیفٹیننٹ جنرل ،شجاع پاشا کے بارے انکے پاس تفصیلات موجود نہیں ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کا مطلب وفاقی کابینہ ہے، متعلقہ دستاویزات پیش کی جائیں دیکھنا ہوگا کہ کیا سابق وفاقی کابینہ نے انھیں اجازت بھی دی تھی یا نہیں؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون میں دو سال کی ممانعت کے باوجود کیا سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے فوری بعد باہر جانے کی اجازت ہوسکتی ہے؟ کیا اس قانون کا اطلاق مسلح افواج پر نہیں ہوتا ہے۔میرا خیال نہیں ہے کہ وفاقی کابینہ نے کوئی ایسی خصوصی اجازت دی ہوگی۔بعد ازاں فاضل عدالت نے سیکرٹری دفاع کو آئندہ سماعت تک راحیل شریف اور شجاع پاشا کی بیرونی ممالک میں ملازمت سے متعلق جاری ہونے والے این او سی عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے سراغ لگائے جانے والے 27 غیر ملکی سرکاری افسران کو بھی نوٹسز جاری کر تے ہوئے انھیں وضاحت کیلئے ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا اور کیس کی مزید سماعت 7 اگست تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button