مقالہ جات

آہنی عزم یمنی، آل سعود حوصلہ ہارنے لگے(1)

سعودی بادشاہت کے بانی عبدالعزیز بن عبدالرحمن نے اپنی موت سے پہلے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے یمن سے متعلق جو جملے ادا کئے، وہ جملے سعودی عرب کی یمن کے ساتھ اپنائی گئی تمام تر پالیسی کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ یہ جملے کیا تھے۔؟ ’’آپکی آسائش، یمن کی کمزوری میں ہے اور آپکی کامیابی انکی تکلیف میں چھپی ہے۔‘‘ گنتی کے چند الفاظ پہ مشتمل آل سعود کے بانی کی یمن سے متعلق یہ پالیسی عصر حاضر میں خطے کے اندر جاری کشت و خون کی بھی آئینہ دار ہے۔ سعودی عرب نے اپنی خارجہ پالیسی کے آغاز سے اب تک نہ صرف یمن بلکہ دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ بھی حتی الوسع "دھمکی ڈپلومیسی” اپنائی۔ ان دھمکیوں کی نوعیت اور اس سلسلے میں میسر وسائل ہی اس سعودی ڈپلومیسی کے اب تک نمایاں ٹول رہے ہیں۔ یمن کی سعودی عرب کے ساتھ جغرافیائی اور سکیورٹی قربت ہمیشہ سے ہی آل سعود کو خطرے کے طور پہ کھٹکتی رہی ہے۔ ایک جانب یمن کا سیاسی نظام آل سعود کیلئے آئیڈیالوجک خطرہ رہا تو دوسری جانب اہل یمن کی خود مختار تاریخ بھی آل سعود کیلئے پریشان کن رہی۔ گوناں گوں خدشات، خطرات اور تصورات نے ہی یمن کو آل سعود کیلئے اولین ترجیح بنا ڈالا۔ جس کے بعد سعودی عرب نے نہ صرف یمن کے داخلی امور میں اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کی بلکہ اسے پسماندہ رکھ کر اپنے زیر دست رکھنے کی کوشش بھی ہمیشہ سے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا اہم عنصر رہی۔

یمن کے حالیہ قضیئے پہ بات کرنے سے قبل ماضی کا ایک سرسری جائزہ لیں تو سال 1978ء میں جنرل علی عبداللہ صالح الاحمر جو کہ زیدی شیعوں میں سے ہے، یمن کے صدر بنتے ہیں، جبکہ 1980ء کی دہائی سے عبداللہ صالح کی حکومت کو وفاداری کے بدلے میں سعودیہ سے ہر سال کئی بلین انعام ملتا رہا۔ 1986ء میں اتحاد الشباب آرگنائزیشن دینی علماء منجملہ بدرالدین حوثی کی نگرانی میں زیدی شیعہ جوانوں کو تعلیم ٹریننگ دینے کی غرض سے قائم ہوئی۔ 1990ء میں شمالی اور جنوبی یمن کے متحد ہو کر ایک ملک بننے کے بعد، یمن میں جمہوری اور ڈموکریٹک نظام کا قیام عمل میں آیا۔ سعودی عرب جو کہ خود مختار یمن سے خائف تھا، اس اتحاد کا سب سے بڑا مخالف رہا۔ آخرکار 2000ء میں، سعودی عرب نے دوسرے دونوں اہداف یعنی سرحدوں کے تعین، حدود اور یمن کی جمہوریت کو تباہ کرنے کی خاطر جدہ کے معاہدے پہ دستخط کرکے یمن کو تقسیم کرنے کے ہدف سے باز آگیا، لیکن اس کے بعد سال 2001ء کے نائن الیون کا دہشتگردانہ حملہ اپنے ساتھ کئی بین الاقوامی نتائج کا حامل رہا۔ ان میں سے ایک نتیجہ امریکہ کی سربراہی میں دنیا کے مختلف علاقوں میں برائے نام اینٹی ٹرورسٹ الائنسز کا قیام تھا۔ بنیادی طور پر ان الائنسز کے ذریعے امریکی و اسرائیلی انٹیلی جنس نیٹ ورک کے دائرہ کار کو مزید کئی گنا گہرائی اور گیرائی میں فروغ دینا تھا۔

دنیا کے دیگر مختلف علاقوں کی طرح یمن میں بھی اس اینٹی ٹرورسٹ الائنسزکی آڑ میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے نام پہ امریکی اتحاد میں باضابطہ شمولیت، امریکی جاسوسوں کی یمن میں مستقل موجودگی اور اسرائیلی وفود کے خفیہ دوروں کی صورت میں سامنے آیا۔ جس کے ردعمل میں حسین الحوثی نے امریکی اور اسرائیلی پروڈکٹس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا اور "اللہ اکبر”، امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد اور جیت اسلام کی ہے، جیسے نعروں کو اس خطے کے نوجوانوں کیلئے باقاعدہ نعرے کے طور پر متعارف کیا۔ ان نعروں اور حسین الحوثی کی دعوت میں اتنی تاثیر تھی کہ یمن کے دارالحکومت سمیت دیگر شہروں کی مساجد نماز جمعہ کے دوران انہی نعروں سے گونج اٹھیں، ان مساجد میں ہر مکتب مسلک کی مساجد شامل تھیں۔ 2003ء میں حوثی قوم جو خود کو زیدی شیعوں کی مدافع، معاون اور ممد سمجھتی ہے، نے عراق پر حملے کی شدید مذمت کی اور صنعا میں امریکی سفارت کے سامنے وسیع پیمانے پر مظاہرے شروع کر دیئے، یمنی حکومت جو کہ امریکہ کی حلیف اور زیدی شیعوں کو اپنے لئے ہمیشہ سے خطرہ سمجھتی تھی، ان کے لئے اس عظیم تحریک کو برداشت کرنا ناممکن تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یمن حکومت کی حوثیوں کے ساتھ مخالفت بڑھتے ہوئے اس حد تک آگئی کہ اس نے سعودیہ اور امریکہ کی ایما پر حوثیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ یہ اعلان ایک ایسی جنگ کا آغاز تھا، جس کی آگ آج بھی شعلہ زن ہے۔

2003ء میں امریکہ کا عراق پر حملہ اور وہاں کی حکومت میں تبدیلی آنے کے بعد یمن بحران نے زور پکڑ لیا۔ ایران اور عراق کے قریبی روابط، عراق میں اقتدار شیعوں کے ہاتھ میں آنا، لبنان میں حزب اللہ کی پیش قدمی اور بحرینی شیعوں کے قیام میں وسعت آنے سے سعودی بادشاہت کی سکیورٹی خطرے میں پڑگئی کیونکہ سعودی عرب کے مشرقی علاقے جہاں پر اس ملک کے اکثر تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں، یہ تمام علاقے اہل تشیع پر مشتمل ہیں۔ اس بنا پر سعودی عرب نے یمن کی سیاسی تبدیلیوں کے میدان میں یہ کوشش شروع کی کہ دوسرے ممالک بالخصوص پرشین گلف میں اپنے رقیب یعنی ایران کی یمن میں مداخلت کو روکے اور خطے سے باہر کے سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ روابط مضبوط کرکے یمن میں اپنا نفوذ بڑھائے۔ سال 2009ء میں ایک وسیع حملہ میں جو کہ Operation Scorched Earth کے نام سے مشہور ہوا، یمن کی حکومت ٹینک اور فضائی فورسز کے ذریعے صعدہ پر حملہ آور ہوئی اور اس حملے میں سعودی عرب نے یمنی فوج کے ساتھ مل کر اور القاعدہ سمیت امریکہ کی مدد لے کر یمن میں زیدی شیعوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ 2010ء میں دونوں جانب جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، لیکن جب یمن میں موجود دس پارٹیاں جن میں سے حوثی بھی تھے، اقتدار کو تقسیم کرنے میں مشغول تھے، تب 26 مارچ میں سعودی عرب کی جانب سے پہلا بم یمن پر گرایا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حوثیوں نے اس اقدام کا ردعمل دکھاتے ہوئے سعودیہ کی سرحدوں پر سعودی فوج کے ساتھ زور آزمائی شروع کر دی۔

سعودی حکومت آغاز سے اب تک قدامت پسند رہی ہے، یعنی ایسا نظام جس میں بادشاہ، سلطنت اور حکومت دونوں سنبھالتا ہو۔ اسلامی بیداری کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور تیونس، مصر اور لیبیا کی حکومتوں کا تختہ پلٹنے کے بعد سعودیوں کی قدامت پسندی پھیکی پڑنے لگی۔ عربی ممالک کی تبدیلیوں کے سونامی سے سعودیہ کے اتحادیوں کی نابودی، اس کے مقام میں کمی آنے اور وہاں کی حکومت کی قانون پوزیشن خطرے میں پڑ گئی۔ اس لئے سعودیہ اس بات پر مجبور ہوگیا کہ ان تبدیلیوں کے خلاف دو محاذوں پر لڑے: پہلا محاذ، اندرون ملک میں تھا، یعنی داخلی مطالبات کی طرف متوجہ ہو جانا، جیسے کہ شیعوں کے، خواتین کے اور جانشینی کے بحران کو حل کرنا اور دوسرا محاذ بیرون ملک یعنی اپنے پڑوسی ممالک میں اور خاص طور پر یمن میں لڑنے لگا۔ اسی طرح ایران کے اسلامی انقلاب نے ماڈرن شکل میں حکومتی نظام کے طور پر سیاسی اسلام کا نظریہ پیش کرکے ابتدا سے وہابی سوچ اور آل سعود کے سامراجی اور خاندانی نظام جو کہ ہمیشہ سے سیاسی اقتدار میں عوام کی شرکت کے خلاف رہا ہے، اس کے لیے خطرہ بنا رہا ہے۔ اس مسئلے کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نظام بدلنے کا مطالب لئے سیلاب کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے۔

سال 2012ء میں حوثیوں نے "انصار اللہ” کی بنیاد رکھی۔ عبداللہ صالح کی حکومت کا تختہ الٹ گیا اور سعودیہ سمیت امریکہ کی پالیسیوں کی مدد سے اس کا مشیر عبد ربہ منصور الہادی یمن کی صدارت کے لئے منتخب ہوا، لیکن یمنی عوام نے اس کی صدارت کو برائے نام انتخابات کا اور اسے سعودیہ اور امریکہ کی مداخلت کا نتیجہ قرار دیا، اس لئے اسے قانونی صدر ماننے سے انکار کر دیا۔ اس لئے یمن میں دو دھڑوں کے بیچ خانہ جنگی شروع ہوئی، جن میں سے ہر ایک خود کو حکومت کا حقدار سمجھتا تھا۔ دوسری طرف سعودی عرب کے وہابی سینیئر اسکالرز کی کونسل نے یمنی عوام کو کافر قرار دے کر سعودیہ کی یمن کے خلاف جنگ کو "جہاد فی سبیل اللہ” کا مصداق متعارف کرایا اور ایک فتویٰ کے ذریعے یمنی عوام کے خون بہانے کو مباح قرار دیا۔ سعودیہ نے یمن میں اپنی فوجی مداخلت کی وجہ یہ بیان کی کہ وہ حوثی جنگجووں کے خلاف جنگ لڑنا چاہتے ہیں، جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے اور دوسری وجہ یہ بتائی کہ منصور الہادی کو دوبارہ اقتدار دلایا جاسکے۔ واضح ہے کہ سعودیہ کی یمن میں فوجی مداخلت کی وجہ حوثیوں اور ایرانیوں سے ماورا ہے، حالانکہ ریاض چاہتا ہے کہ اس بہانے اپنے ملک کے اندر تازہ جنم لینے والی جمہوریت کی دھمکی کو دبا سکے۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

Back to top button