مقالہ جات

ٹالکم پوڈر داعش کی آمدنی کا زریعہ

ہم متعدد بار اس موضوع پر گفتگو کرچکے ہیں کہ داعش ایک مہنگا پروجیکٹ ہے جسے اس قدر آسانی کے ساتھ نابود ہوتے ہوئے اس کے ڈئزائنرزنہیں دیکھ سکتے ۔
داعش پر اربوں نہ تو کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئ ہے ،اس پروجیکٹ کے مقابلے میں اسی کی دہائی کا طالبان پروجیکٹ بھی ماند پڑتا دیکھائی دیتا ہے کہ اب جس کا بستر گول کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔
عراق و شام میں داعش کے تقریبا خاتمہ کے باوجود افریقہ سے لیکر افغانستان تک داعش کی سرگرمیاں نہ صرف جاری ہیں بلکہ ہرگذرتا دن اضافہ ہوتا دیکھائی دیتا ہے ۔
افغانستان میں اس وقت سرکاری سطح پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ کوششیں دیکھائی دیتی ہیں کہ طالبان کے وجود ختم کیا جائے ،مذاکراتی ٹیبل پر اشرف غنی کی جانب سے طالبان کے لئے کی جانے والی غیر متوقع پیش کش اس بات کی عکاس ہے کہ طالبان اب اپنے اکسپائری ڈیٹ کو پہنچ چکے ہیں ۔
ماہرین کا خیال ہےکہ داعش جیسے نئے پروجیکٹ کی کامیابی کا انحصار ایک حد تک طالبان کے خاتمے میں پوشیدہ ہے لہذا تقریباتین دہائیوں سے ادھم مچانے والے اس شدت پسند پروجیکٹ میں اب وہ پہلی جیسی کشش نہیں رہی اور نہ ہی طالبان کی ڈوریاں اب کسی ایک ہاتھ میں دیکھائی دیتی ہیں لہذا اس گروہ کا خاتمہ ضروری ہے ۔
افغانستان میں پانچ سال پہلے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر شروع ہونے والے داعش شدت پسند گروہ اب اس قابل دیکھائی دیتا ہے کہ مکمل طور پر اپنے بربری کاموں کا آغاز کرے ۔
ان پانچ سالوں میں معشیتی طور پر یہ گرو ہ تقریبا خود کو خودکفیل کرچکا ہے ،عراق و شام میںچندہ مہم اغوا برائے تعاون کے علاوہ تیل کی خرید و فروخت اس گروہ کی آمدنی کا بنیادی زریعہ تھا جبکہ افغانستان میں معدنیات اس گروہ کی آمدنی کا بنیادی زریعہ ہے
افغانستان میں داعش اس وقت معدنیا ت جیسے ٹالکم پوڈر میں استعمال ہونے والا رامٹیریل talc Raw materialسمیت قیمتی پتھروں کے کاروبار کے زریعے ماہانہ لاکھوں ڈالر کمارہی ہے ۔
عالمی تنظیم Global Witnessکے مطابق داعش کا نکالا جانا والا ٹالک میٹریل کی سب سے بڑی خریداری یورپ اور امریکہ کی جانب سے ہورہی ہے ۔
ٹالک زمین سے نکلنے والی نرم و ملائم ترین معدنیات میں ہے اور اس کے اخراج میں بھی کسی قسم کی زیادہ پیچیدگی موجود نہیں ۔
یہ مادہ دراصل میگنیشیم سلیکیٹ ہائیڈرائڈپر مشتمل ہوتا ہے کہ جس کے متعدد استعمال ہوسکتے ہیں اس مادے کو کاسمیٹک ، ٹیکسٹائل، زراعت ،کنسٹریکشن کے ساتھ ساتھ دھماکہ خیز مواد بنانے کے لئےبھی استعمال کیا جاتا ہے۔
جرمن نیوزایجنسی نے افغان وزیر معدنیا ت و پیٹرولیم سے خبردی ہے کہ اب تک داعش 500 ہزار ٹن
کی مقدار میں اس مادے کو فروخت کرچکی ہے ۔
نیوز ایجنسی کے مطابق افغانستان سے یہ مادہ پاکستان اور پھر وہاں سے دیگر ممالک میں بھیجا جاتا ہے اور پاکستان امریکی مارکیٹ کے ایک بٹاتین حصہ ضرورت کو اس سلسلے میں پورا کرتا ہے جبکہ اس کا کچھ حصہ یورپ بھی چلاجاتا ہے ۔
عالمی تنظیم Global Witnessکے ڈائریکٹر نک ڈوننوان کا کہنا ہے کہ’’ امریکہ اور یورپ اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ افغانستان میں شدت پسند گروہ کو تقویت پہنچارہے ہیں ‘‘
عراق و شام کی طرح افغانستان میں بھی ان علاقوں پر قبضے کو لیکر داعش اور طالبان میں کشمکش موجود ہے جہاں اس قسم کی معدنیات اور قیمتی پتھر پائے جاتے ہیں کہ جس میں سے ایک اہم صوبہ ننگرھار کا صوبہ ہے ۔
واضح رہے کہ ننگرھار داعش کے اہم ترین مراکز میں سے ایک شمار ہوتا ہے ۔
پاکستان کی سرحد کے بالکل قریب واقع ننگرھار صوبے کو معدنیات اور قدرتی زخائر کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جہاں نہ صرف ٹالک پوڈر بلکہ قیمتی پتھر جیسے کرومائٹ اور ماربل سونا وغیرہ کا بھی ایک وسیع سلسلہ موجود ہے ۔
اس کے علاوہ ننگرھار ہرقسم کی غیر قانونی اسمگلنگ کی گذرگاہ بھی شمار ہوتا ہے ۔
داعش دہشتگرد گروہ کے بارے میں شروع میں اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اس گروہ کو افغانستان میں پنپتے وقت لگے گا کیونکہ ایک تو یہ گروہ عرب دنیا میں پروان چڑھا ہے جبکہ دوسری جانب افغانستان میں پہلے سے طالبان کے متعدد گروہ فعال ہیں ،لیکن ماہرین اب کہتے ہیں کہ یہ تمام اندازے اور تجزیے غلط ثابت ہوئے ہیں ۔
آج داعش افغانستان میں تیزی کے ساتھ پھیلتا ایک گروہ ہے کہ جس نے اس زمین پر اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیںوہ مسلسل نوجوانوں اور جوانوں کی بھرتیاںنہ صرف افغانستان سے بلکہ ہمسائیہ ممالک جیسے پاکستان اور روسی آزادشدہ ریاستوں سے بھی کررہے ہیں ۔
پاکستان میں داعش لشکر جھنگوی ،طالبان پاکستان اور القاعدہ سوچ کے حامل قدرے پڑھے لکھے افراد کے زریعے سے بھرتیاں کررہی ہے ۔
پاکستان میں وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں حالیہ زیادہ تر حملوں کے پچھے داعش یا داعش سے تعلق رکھنے والے گروہوں کا ہاتھ ہے ۔
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ داعش کا افغان ورژن اس پروجیکٹ کا وہ مرحلہ ہے کہ جس میں چینی ٹریڈ،انقلابی ایران اور ایٹمی پاکستان کو پہلے مرحلے میں نشانہ بنانا ہے ۔
ظاہر ہے کہ یہاں جس قدر بدامنی ہوگی اس قدر بین الاقوامی فورسز خاص کر امریکہ کو اس خطے میں مزید پاوں گاڑنے کی گنجائش نکل آئے گی ۔
بعض افراد کا خیال ہے کہ پاکستان میں داعش کی سوچ سے ملتے جلتے بہت سے شدت پسند گروہ جیسے کالعدم سپاہ صحابہ ،لشکر جھنگو ی وغیرہ کو سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش کے پچھے ایک سبب ممکنہ طور پر داعش کے لئے گرونڈ کو تنگ کرنا ہے تاکہ وہ پاکستان میں پنپ نہ سکے ،لیکن کیا یہ شدت پسند گروہ سیاسی شلٹر کے زریعے شدت پسندی کے لئے مزید طاقت پکڑ لے گے یا پھر ماضی کو پچھا چھوڑتے ہوئے پرامن شہری بننے کی جانب راغب ہو نگے یہ وقت بتائے گا ۔
واضح رہے کہ ماضی میں داعش کے وجود سے مسلسل انکار کے بعد حال ہی میں پاکستان نے داعش کو اپنا پہلانمبر کا دشمن کے طور پر پہچنوایا ہے ۔
اس تمام تر صورتحال میں افغانستان ،پاکستان چین ،ایران اور روس کو چاہیے کہ داعش کے افغان پروجیکٹ کیخلاف ایک مشترکہ بلاک تشکیل دیں تاکہ باہمی اشتراک سے بہتر سدباب کیا جاسکے ۔
ہمارے خیال میں اس کا آغاز داعش کی مالی قوت کے آگے روکاوٹیں کھڑی کرکے اس کا آغاز کیا جاسکتا ہے جو ننگرھار صوبے سے برآمد ہونے والی معدنیات کی شکل میں ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button