پاکستان

اوریا مقبول جان متنازع رہے ہیں ،اقلیتوں کے حوالے سے انکا موقف درست نہیں، فواد چوہدری

شیعیت نیوز:  جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی محمود الرشید نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی میں پارلیمانی بورڈ کا اجلاس ہورہا ہے اور ٹکٹوں کی افراتفری پڑی ہوئی ہے، کل سے کاغذات نامزدگی الیکشن کمیشن میں جمع ہونا شروع ہوجائیں گے جبکہ بہت کام کرنا باقی ہے، نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے ایاز امیر اور اوریا مقبول جان کے ناموں پر کنفیوژن رابطوں کے فقدان کی وجہ سے ہے، عمران خان سے مشورے کے بعد اوریا مقبول جان اور یعقوب اظہار کے نام دیئے، عمران خان کی طرف سے جب ایاز امیر کا نام شامل کرنے کا پیغام آیا تو میں میٹنگ ختم کرچکا تھا۔ محمود الرشید کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے نگراں وزیراعلیٰ کیلئے جمعے کو ایاز امیر، اوریا مقبول جان اور یعقوب اظہار کے نام دیئے ہیں جبکہ حسن عسکری کا نام پہلے ہی موجود ہے، ہوسکتا ہے یہ بات فواد چوہدری کے نوٹس میں نہیں ہو ،میری اس بارے میں براہ راست عمران خان سے بات ہوئی، عمران خان نے مجھے کہا ٹھیک ہے آپ اوریا مقبول جان کا نام بھی ڈال دیں، اوریا مقبول جان کا نام کسی دوست کی طرف سے آیا تھا، میں نے اس پر رائے لی تو عمران خان نے ان کا نام ڈالنے پر اتفاق کیا۔محمود الرشید نے کہا کہ حکومت کی طرف سے بھی کچھ نئے نام آئے ہیں، یہ طے ہوا کہ ناموں کو شارٹ لسٹ کر کے دو ناموں پر بات کی جائے گی، اتوار کو ملاقات میں کسی ایک نام پر اتفاق رائے کی کوشش کریں گے، ہمارے معاشرے میں کوئی غیرجانبدار نہیں ہوتاہر شخص کا کسی نہ کسی طرف جھکاؤ ہوتا ہے، ن لیگ نے جو نام دیئے ہیں ان کا جھکاؤ بھی کسی طرف ہے، حکومت نے اوریا مقبول جان سمیت مزید ایک دو ناموں پر اعتراض کیا، مشاورت کے بعد اتوار کو ملاقات میں ایک نام ن لیگ اور ایک نام ہماری طرف سے دیا جائے گا۔ ترجمان پاکستان تحریک انصاف فواد چوہدری نے کہا کہ اوریا مقبول جان اور ایاز امیر کے نام سے متعلق کنفیوژن ہوا ہے، کور گروپ کی کمیٹی میں نگراں وزیراعلیٰ کیلئے اوریا مقبول جان کے نام پر بات ہوئی لیکن حتمی ناموں میں ان کا نام شامل نہیں تھا، کمیٹی نے تین نام فائنل کیے تھے مگر محمود الرشید نے ان تینوں ناموں کے علاوہ اوریا مقبول جان کا نام بھی دیا، ہوسکتا ہے محمود الرشید نے عمران خان سے براہ راست بات کی ہو اور خان صاحب نے کہا ہو کہ اوریا مقبول جان اچھے آدمی ہیں، میں نے پارٹی کی طرف سے منظور شدہ نام آگے دیئے ہیں، محمود الرشید اپوزیشن لیڈرہیں انہوں نے اگر کوئی نام شامل کردیا ہے تو اس کی قانونی حیثیت ہے، میری عمران خان سے بات نہیں ہوئی ۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں فیصلہ سازی کا فقدان ہو یا مس کمیونیکیشن دونوں صورتوں میں برا ہورہا ہے جو نہیں ہونا چاہئے، کمیونیکیشن زیادہ اچھی ہونی چاہئے فیصلہ سازی کا معاملہ بہتر بنانے کی گنجائش ہے، اوریا مقبول جان متنازع رہے ہیں ان کا اقلیتوں کے حوالے سے جو نکتہ نظر ہے اس سے اتفاق نہیں کرتا ہوں، پارٹی میں ایک رائے ہے کہ اوریا مقبول جان کا نام نہیں ہونا چاہئے، ہم نے باقی تین نام جو دیئے ہیں وہ غیرمتنازع ہیں، نگراں وزیراعلیٰ کیلئے غیرمتنازع ہونا بہت اہم ہے۔ماہر قانون کامران مرتضیٰ نے کہا کہ خواجہ آصف کی نااہلی ختم کرنے کے فیصلے سے لگتا ہے سپریم کورٹ کا نکتہ نظر تبدیل ہوا ہے، نواز شریف کیخلاف فیصلے اور خواجہ آصف کے جواب میں کمزوری کی وجہ سے سپریم کورٹ میں بھی فیصلہ برقرار رہنے کی توقع تھی، خواجہ آصف کا معاملہ بھی نواز شریف کی طرح اقامہ کا تھا، سپریم کورٹ کس کیس میں اپنا فیصلہ ری وزٹ کرسکتی ہے، خواجہ آصف کی نااہلی ختم ہونے کے فیصلے کا فائدہ جہانگیر ترین کو بھی ہوسکتا ہے، نواز شریف کے کیس میں ریویو ضائع ہونے کے بعد عدالت کی طرف سے فیصلے پر ری وزٹ کرنے کی گنجائش نہیں ہے ، رولز کے مطابق سیکنڈ ریویو کی ممانعت ہے مگر ایک آدھ فیصلہ ایسا موجود ہے۔ کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کے کیس میں فیصلے کی وجہ سے شیخ رشید کو بھی ریلیف مل سکتا ہے،شیخ رشید خواجہ آصف کے فیصلے کو نظیر بنا کر درخواست دے سکتے ہیں کہ اس کیس میں دوسرا ویو لیا گیا ہے اس لئے ہمیں اس کا فیصلہ فائل کرنے دیں اور تب تک میرے کیس کے فیصلے کا اعلان نہ کیجئے، کسی کو تاحیات سیاسی عمل سے نہیں روکا جاسکتا ہے، ممکن ہے کبھی وہ وقت آئے جب سپریم کورٹ اپنے اس فیصلے کو ری وزٹ کرے کیونکہ یہ آرٹیکل 17 کی روح کیخلاف ہے۔سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا کہ پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ وقت پر انتخابات چاہتی ہیں، کچھ لوگوں کو ڈر ہے کہ یہی تینوں پارٹیاں ساری نشستیں لے جائیں گی اور چوتھا گروپ جس نے سینیٹ الیکشن میں کام دکھایا اسے کچھ نہیں ملے گا، ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ فوراً انتخابات ہوئے تو سینٹرل پنجاب کی 82 اور پوٹوہار کی 13نشستوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی اس لئے اگر الیکشن ملتوی ہوجائیں تو لوگ ن لیگ چھوڑ جائیں گے، چیف جسٹس آف پاکستان، نگراں وزیراعظم اور الیکشن کمیشن کا وقت پر الیکشن کے حوالے سے بہت واضح موقف ہے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ نگراں سیٹ اپ کو کچھ وقت کی توسیع ملنے کا اندیشہ موجود ہے، ن لیگ کی قوت ابھی اس طرح نہیں ٹوٹی جس طرح بعض لوگ توقع کررہے تھے، سینٹرل پنجاب اور پوٹوہار کی 95نشستوں نے حکومت بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرنا ہے، پنجاب حکومت کیلئے مینجمنٹ ابھی تک مکمل نہیں ہوئی ہے، ن لیگ اگر صوبائی اسمبلی کی 70نشستیں لے گئی تو وزیراعلیٰ پنجاب ان کا بنانا پڑے گا، ن لیگ کے مخالف یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ نواز شریف کی پارٹی پچاس سے کم نشستیں حاصل کرے تاکہ وزیراعلیٰ پنجاب ن لیگ کا نہ آسکے، وفاقی حکومت کے حوالے سے بہت حد تک مینج کرلیا گیا ہے ،فاٹا، بلوچستان اور کراچی کی پچاس نشستیں بن جاتی ہیں جبکہ آزاد امیدوار اور پی ٹی آئی کی نشستیں ملا کر وفاقی حکومت کی سطح تک انتظامات مکمل لگتے ہیں۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جتنا سنجیدہ معاملہ ہے اتنی ہی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ ہورہا ہے، مسلسل غلطیاں دہرائی جارہی ہیں اور اس طرح دہرائی جارہی ہیں کہ اب صورتحال مضحکہ خیز لگتی ہے، اہم معاملہ پر پارٹی میں مشاورت اور اتفاق رائے کا فقدان نظر آرہا ہے، پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کے نام پر تحریک انصاف کی سیاسی ناپختگی کا آج ایک اور معاملہ سامنے آیا، ناصر کھوسہ کا نام واپس لیے ہوئے تحریک انصاف کو ابھی دو دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ جمعے کو اس معاملہ پر پارٹی میں رابطوں کا فقدان سامنے آیا، پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کیلئے اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی محمود الرشید اور پارٹی ترجمان فواد چوہدری کی طرف سے دیئے گئے ناموں پر کنفیوژن نظر آئی، یہ کنفیوژن ابھی تک برقرار ہے، محمود الرشید نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ نگراں وزیراعلیٰ کیلئے مزید دو نام اوریا مقبول جان اور یعقوب اظہار کے تجویز کیے گئے ہیں، لیکن ان ناموں کے سامنے آنے کے کچھ دیر بعد ہی تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری کا ایک ٹوئٹ سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ پارٹی کی جانب سے جو تین نام تجویز کیے گئے ہیں اس میں حسن عسکری، ایاز امیر اور یعقوب اظہار کے نام ہیں، فواد چوہدری کی ٹوئٹ میں اوریا مقبول جان کا نام شامل نہیں تھا جبکہ محمود الرشید کی پریس کانفرنس میں ایاز امیر کا نام شامل نہیں تھا، ترجمان تحریک انصاف نے جیو نیوز سے گفتگو میں اس بارے میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی چار رکنی کمیٹی نے جو نام منظور کیے ان میں ایاز امیر کا نام شامل تھا جبکہ اوریا مقبول جان کا ذکر رہا لیکن ان کے نام کی منظوری نہیں دی گئی، انہوں نے تسلیم کیا کہ اس معاملہ میں مس کمیونیکیشن ہوئی جبکہ محمود الرشید اصرار کرتے رہے کہ انہوں نے پارٹی لیڈرشپ سے مشاورت کے بعد ہی اوریا مقبول جان اور یعقوب اظہار کا نام دیا ہے، اسی دوران محمود الرشید کا ویڈیو پیغام میں نیا موقف سامنے آیا جس کے مطابق ان کی اسپیکر سے ملاقات کے بعد پارٹی کی جانب سے ایاز امیر کا نام ملا، اس طرح نگراں وزیراعلیٰ کیلئے پی ٹی آئی نے اب چار نام تجویز کیے ہیں جس میں اوریا مقبول جان، یعقوب اظہار، ایاز امیر اور حسن عسکری شامل ہیں، یہ بڑی دلچسپ صورتحال تھی کیونکہ محمود الرشید نے ابھی بھی اوریا مقبول جان کو مائنس نہیں کیا البتہ ایاز امیر کا اضافہ ضرور کردیا، فواد چوہدری اپنی بات پر قائم رہے کہ اوریا مقبول جان کا نام نہیں ہے۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ جیو نیوز نے ناصر کھوسہ کا نام مسترد ہونے سے متعلق اندرونی کہانی کا پتا چلایا ہے، جیو نیوز کے ذرائع کے مطابق ناصر کھوسہ کے نام پر شہباز شریف کے متفق ہونے پر تحریک انصاف میں بے چینی پیدا ہوئی کہ شہباز شریف کیسے ناصر کھوسہ کے نام پر مان گئے، محمود الرشید نے ناصر کھوسہ سے دستبردارہونے کی درخواست کی اور کہا کہ مجھ پر پارٹی کا دباؤ ہے اس لئے آپ خود ہی معذرت کرلیں، ذرائع کا بتانا ہے کہ محمود الرشید نے ناصر کھوسہ کو پیغام دیا کہ وہ دستبردار نہیں ہوں گے ان کا نام واپس لے لیا جائے گا، ناصر کھوسہ کے انکار پر تحریک انصاف کی قیادت نے محمود الرشید کو ان کا نام واپس لینے کی ہدایت کی اورتمام ذمہ داری اپنے سر لینے کیلئے کہا، محمود الرشید پر اس کیلئے پارٹی قیادت کی طرف سے دباؤ بھی ڈالا گیا جس پر محمود الرشید نے کور کمیٹی کے ارکان کو احتجاج کی دھمکی بھی دی، ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے محمود الرشید کو غصہ نہ کرنے کا مشورہ دیا، ذرائع سے سامنے آنے والی اندرونی کہانی کے مطابق ناصر کھوسہ کا نام عمران خان نے ہی تجویز کیا تھا، اس بات کی تصدیق خود محمود الرشید نے ہمارے پروگرام میں کی تھی ، اس کے ساتھ یہ تسلیم بھی کیا تھا کہ نگراں وزیراعلیٰ کا نام تجویز کرنے کے معاملہ پر غلطی ہوئی۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ سیاستدانوں کے سیاسی مستقبل کے فیصلے عدالتوں میں ہورہے ہیں، نواز شریف اور جہانگیر ترین نااہل ہوئے، عمران خان نااہلی سے بچ گئے اور شیخ رشید کی نااہلی کا فیصلہ 73دنوں سے محفوظ ہے، خواجہ آصف کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے نااہل قرار دیا تھا مگر جمعے کو سپریم کورٹ نے انہیں اہل قرار دیدیا، خواجہ آصف کیس کا تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا لیکن سوال اٹھ رہا ہے کیا یہ فیصلہ مستقبل کے فیصلوں پر اثرانداز ہوگا اور ماضی کے فیصلوں کا کیا ہوگا،یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ فیصلہ جہانگیر ترین کی نااہلی کی نظرثانی کی درخواست اور شیخ رشید نااہلی کیس کے فیصلے پر اثر انداز ہوگا،جمعے کو خواجہ آصف کو اہل قرار دینے کا مختصر فیصلہ دیتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے سے متعلق وجوہات بعد میں بتائیں گے، یہ وجوہات بہت دلچسپ اور اہم ہوں گی، جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ٹیکس تفصیلات ظاہر نہ کرنے پر نااہلی نہیں ہوسکتی، ہمارے پاس مقدمہ آرٹیکل 62/1Fسے متعلق ہے اگر اس آرٹیکل سے متعلق غلطی نہیں بنتی تو پھر معاملہ اگلا ہوگا، عمران خان نے خواجہ آصف کی اہلی کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے اسے تقسیم کیا مگر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کے حق میں فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے جہانگیر ترین کی نااہلی بھی ختم ہوسکتی ہے، جہانگیر ترین کو پندرہ دسمبر کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا جس پر انہوں نے عدالت سے نظرثانی کی درخواست کی، فرق یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خواجہ آصف کو نااہل قرار دیا ان کے پاس سپریم کورٹ میں اپیل کی گنجائش تھی مگر جہانگیر ترین کے پاس اپیل کی گنجائش نہیں ہے، جہانگیر ترین کی نااہلی کی وجوہات بھی اہم ہیں، عدالت نے جہانگیر ترین کو صر ف اثاثے چھپانے پر ہی نااہل نہیں قرار دیا بلکہ سپریم کورٹ میں جھوٹ بولنے پر بھی انہیں نااہل قرار دیا گیا، جہانگیر ترین نے عدالت میں نظرثانی کی درخواست دائر کی ہوئی ہے مگر پانچ ماہ گزرنے کے بعد بھی اس درخواست کی سماعت نہیں ہوئی، سپریم کورٹ میں شیخ رشید کی نااہلی کا فیصلہ بھی گزشتہ ڈھائی ماہ سے محفوظ ہے، سپریم کورٹ نے کئی سماعتوں کے بعد بیس مارچ کو شیخ رشید کی نااہلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا وہ فیصلہ بھی ابھی تک نہیں سنایا گیا، اس کیس کی آخری سماعت میں جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے تھے کہ درخواست گزار کے مطابق غلطی جیسی بھی ہو امیدوار کو باہر کردینا چاہئے، کیا پاناما کیس کے وضع کردہ اصولوں کا اطلاق سب پر نہیں ہوگا، اگر سخت لائبیلٹی کا اصول ثابت ہوا تو شیخ رشید آؤٹ ہوجائیں گے، پاناما کیس فلیٹس کا تھا نااہل اقامہ پر کیا گیا۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کی اپیل پر سپریم کورٹ کا جمعے کا فیصلہ کیا اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ گزشتہ فیصلوں کے مقابلہ میں عدالت نے اپنا ذہن بدلا ہے، نواز شریف اپنا نظرثانی اپیل کا حق بھی استعمال کرچکے ہیں کیا ان کے فیصلے پر نظرثانی ہوسکتی ہے یا عدالت اس کو دیکھ سکتی ہے، کیا ایسی کوئی نظیر موجود ہے جبکہ قانون میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ جس نے انتخابات کرانا ہے، جس نے انتخابات کی نگرانی کرنی ہے اور جس نے انتخابات لڑنے ہیں وہ تمام اسٹیک ہولڈرز واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے جس کے ساتھ ہی عام انتخابات کے التواء کے خدشات دم توڑ گئے ہیں لیکن پھربھی کہیں نہ کہیں سے التواء کی آواز اٹھ رہی ہے اور انہی آوازوں نے شکوک و شبہات پیدا کردیئے ہیں، عام انتخابات کے 25 جولائی کوا نعقاد کے اعلان کے بعد دو روز پہلے بلوچستان اسمبلی نے انتخابات میں ایک ماہ کی تاخیر کیلئے وفاقی حکومت سے رجوع کرنے کی قرارداد پیش کی، قرارداد میں اس تاخیر کے پیچھے ماہ جولائی میں عوام کی اکثریت کا حج کیلئے سعودی عرب جانا اور جولائی میں مون سون کے باعث عوام کی نقل مکانی کے عوامل شامل کیے گئے تھے، اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان اسمبلی وہی اسمبلی ہے جہاں سینیٹ انتخابات سے پہلے سب سے زیادہ جوڑ توڑ ہوا، یہ وہی اسمبلی تھی جہاں سینیٹ انتخابات سے پہلے ن لیگ کے منحرف اراکین اسمبلی نے اپنے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف بغاوت کی اور اب انہی اراکین کی جانب سے انتخابات ملتوی کیے جانے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button